جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جُھوٹی قسم
سادگی دیکھو کہ پِھر بھی اِعتِبار آ ہی گیا
………….
بہت زور سے ہنسا میں بڑی مددتوں کےبعد
آج پھر کہا کسی نے میرا اعتبار کیجیے
…………
کوئی نہیں ہے یہاں اعتبار کے قابل
کسی کو راز بتاو گے مارے جاؤ گے
…………
اپنوں کے بدلنے کا دکھ نہیں مجھے
میں بس اپنے اعتبار سے پریشان ہوں
…………
ہر حقیقت فریب لگتی ہے
جب کوئی اعتبار کھو بیٹھے
آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا وہ خواب میں دیکھا
عبد الحمید عدم
………….
عدم بہت ہی اگر روٹھنے لگی امید
کسی کے وعدے پہ پھر اعتبار کر لوں گا
عبد الحمید عدم
…………..
کف خزاں پہ کھلا میں اس اعتبار کے ساتھ
کہ ہر نمو کا تعلق نہیں بہار کے ساتھ
عابد سیال
……….
اس اعتبار پہ کاٹی ہے ہم نے عمر عزیز
سحر کا وقت اجالے بھی ساتھ لائے گا
عابد ودود
………….
جس کو خود اپنا اعتبار نہ ہو
ایسے انساں کا اعتبار نہ کر
ابوزاہد سید یحییٰ حسینی قدر
…….
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
ادا جعفری
…………
وار پشت پر کرکے کیا ملا تمہیں آخر
ایک پل میں کھو بیٹھے اعتبار جتنا تھا
عادل زیدی
……….
وہ میری راہ میں کانٹے بچھائے میں لیکن
اسی کو پیار کروں اس پہ اعتبار کروں
احمد ہمدانی
……….
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
احمد حسین مائل
………….
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
احمد حسین مائل
………..
وہیں پہ ٹوٹنے لگتا ہے اعتبار وفا
جہاں یقین زیادہ دلائے جاتے ہیں
آئرین فرحت
………….
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
اعتبار ساجد
…………….
میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں
جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں
اعتبار ساجد
…………
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
اعتبار ساجد
………….
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
اعتبار ساجد
………..
ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے
اعتبار ساجد
………..
عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے
یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے
اعتبار ساجد
……….
یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم
اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
اعتبار ساجد
………….
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا
اعتبار ساجد
…………
پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
اعتبار ساجد
……..
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
اعتبار ساجد
………..
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
اعتبار ساجد
………
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
اعتبار ساجد
…………..
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
اعتبار ساجد
……….
کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ
میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں
اعتبار ساجد
………
ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں
سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے
اعتبار ساجد
…………
میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری
دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا
اعتبار ساجد
……
تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں
کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں
اعتبار ساجد
……….
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
اعتبار ساجد
……
ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں
کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا
اعتبار ساجد
…………
تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی
شکستہ آئینوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
……….
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں
اعتبار ساجد
…….
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں
اعتبار ساجد
…….
جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں
جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے
اعتبار ساجد
…………..
بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں
آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں
اعتبار ساجد
……………
جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی
چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی
اعتبار ساجد
…………
چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ
اعتبار ساجد
………….
اتنا پسپا نہ ہو دیوار سے لگ جائے گا
اتنے سمجھوتے نہ کر صورت حالات کے ساتھ
اعتبار ساجد
………..
دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں
شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے
اعتبار ساجد
………
رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
اعتبار ساجد
…………
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو
اعتبار ساجد
…………
مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی
وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے
اعتبار ساجد
………….
پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے
رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے
اعتبار ساجد
………..
برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا
اعتبار ساجد
………….
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں
اعتبار ساجد
…………
یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا
اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں
اعتبار ساجد
………..
مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ
کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا
اختر نظمی
………
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
اختر سعید خان
…………
مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن
تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے
اختر شیرانی
………..
یہ اور بات کہ اقرار کر سکیں نہ کبھی
مری وفا کا مگر ان کو اعتبار تو ہے
علیم اختر مظفر نگری
…………..
تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ
جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ
علی عباس امید
……..
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
عنبرین حسیب عنبر
………
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
امجد اسلام امجد
………….
اے آسمان حرف کو پھر اعتبار دے
ورنہ حقیقتوں کو کہانی لکھیں گے لوگ
انجم بارہ بنکوی
………
ہم ایسے لوگ بہت خوش گمان ہوتے ہیں
یہ دل ضرور ترا اعتبار کر لے گا
انجم خلیق
………..
خود کو اذیتیں نہ دے مجھ کو اذیتیں نہ دے
خود پہ بھی اختیار رکھ مجھ پہ بھی اعتبار کر
انجم خلیق
………..
عالم پیری میں کیا موئے سیہ کا اعتبار
صبح صادق دیتی ہے جھوٹی گواہی رات کی
اسد علی خان قلق
………..
قریب سے نہ گزر انتظار باقی رکھ
قرابتوں کا مگر اعتبار باقی رکھ
عتیق اثر
………
بکھر رہی تھی ہواؤں میں اعتبار کی راکھ
اور انتظار کی مٹھی میں زندگی کم تھی
عزیز نبیل
………..
اعتبار دوستی کا رنگ ہوں
بے یقینی میں اتر جاؤں گا میں
عزیز نبیل
……….
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
عزیز تمنائی
……….
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
عزیز تمنائی
……..
تو بھلے میرا اعتبار نہ کر
زندگی میں ترے کہے میں ہوں
بلوان سنگھ آذر
………..
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
بیخود دہلوی
…………
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
داغؔ دہلوی
……..
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
داغؔ دہلوی
……
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
داغؔ دہلوی
……….
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
داغؔ دہلوی
………
آپ تشریف لائے تھے اک روز
دوسرے روز اعتبار ہوا
فہمی بدایونی
……
کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں
فانی بدایونی
………
تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہ ہو دکھاؤں گا
میں آئنہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی کرو
فراغ روہوی
……
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح
فرید پربتی
……….
مسلک وفا کے باب میں وہ اختیار کر
میں جھوٹ بھی کہوں تو مرا اعتبار کر
فرحت زاہد
………
ایک خواب و خیال ہے دنیا
اعتبار نظر کو کیا کہئے
فگار اناوی
……..
نشاط اظہار پر اگرچہ روا نہیں اعتبار کرنا
مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کا سراغ ملتا ہے گفتگو سے
غلام حسین ساجد
……….
عادتاً تم نے کر دیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
گلزار
……..
ہے نوید بہار ہر لب پر
کم نصیبوں کو اعتبار نہیں
حبیب احمد صدیقی
………..
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
حفیظ جونپوری
…..
آنکھوں میں جل رہے تھے دیئے اعتبار کے
احساس ظلمت شب ہجراں نہیں رہا
حنیف اخگر
…….
ہم زمانہ شناس تھے پھر بھی
داستاں گو پہ اعتبار کیا
افتخار حیدر
…………
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
امداد امام اثرؔ
…….
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
جاں نثاراختر
………….
خیال یار کے روشن دیے کرو ورنہ
اندھیری رات میں منزل کا اعتبار نہیں
جے کرشن چودھری حبیب
……..
مجھے ہی دیکھ کہ جیتا ہوں تیرے وعدوں پر
یہ کون کہتا ہے وعدوں پہ اعتبار نہیں
جے کرشن چودھری حبیب
…………..
جلالؔ عہد جوانی ہے دو گے دل سو بار
ابھی کی توبہ نہیں اعتبار کے قابل
جلالؔ لکھنوی
……..
وعدہ کیوں بار بار کرتے ہو
خود کو بے اعتبار کرتے ہو
جلالؔ لکھنوی
……..
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
جون ایلیا
………..
اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا
جون ایلیا
…………
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا
جاوید اختر
……..
صورت نہ یوں دکھائے انہیں بار بار چاند
پیدا کرے حسینوں میں کچھ اعتبار چاند
جاوید لکھنوی
………
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
جواد شیخ
……..
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
…………
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
جگر مراد آبادی
……….
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
جوش ملیح آبادی
……….
کیا زمانے کا اعتبار کروں
اب نہیں اپنا اعتبار مجھے
کرامت علی کرامت
……………
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
خمارؔ بارہ بنکوی
……….
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
خواجہ میر درد
………
تو بے وفا ہے ترا اعتبار کون کرے
تمام عمر ترا انتظار کون کرے
ضیغم حمیدی
………
میں گھر سے جاؤں تو تالا لگا کے جاتی ہوں
کچھ اس کی شہرتیں کچھ اعتبار اس کا ہے
یاسمین حبیب
…….
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
یاسمین حمید
……
یاسؔ اس چرخ زمانہ ساز کا کیا اعتبار
مہرباں ہے آج کل نا مہرباں ہو جائے گا
یگانہ چنگیزی
…..
یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ
مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ
ندا فاضلی
……….
رشتوں کا اعتبار وفاؤں کا انتظار
ہم بھی چراغ لے کے ہواؤں میں آئے ہیں
ندا فاضلی
……….
ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے
نکہت بریلوی
…….
وعدے اور اعتبار میں ہے ربط باہمی
اس ربط باہمی کا مگر اعتبار کیا
نشور واحدی
………..
اعتبار دوستی کا رنگ ہوں
بے یقینی میں اتر جاؤں گا میں
عزیز نبیل
………
ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے
ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید
عزیز تمنائی
………
تو بھلے میرا اعتبار نہ کر
زندگی میں ترے کہے میں ہوں
بلوان سنگھ آذر
……..
جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں
تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا
بیخود دہلوی
…………
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
داغؔ دہلوی
………
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
داغؔ دہلوی
………..
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
داغؔ دہلوی
……
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
داغؔ دہلوی
……..
آپ تشریف لائے تھے اک روز
دوسرے روز اعتبار ہوا
فہمی بدایونی
………..
کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں
فانی بدایونی
…..
تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہ ہو دکھاؤں گا
میں آئنہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی کرو
فراغ روہوی
……….
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح
فرید پربتی
………..
مسلک وفا کے باب میں وہ اختیار کر
میں جھوٹ بھی کہوں تو مرا اعتبار کر
فرحت زاہد
……….
ایک خواب و خیال ہے دنیا
اعتبار نظر کو کیا کہئے
فگار اناوی
………..
نشاط اظہار پر اگرچہ روا نہیں اعتبار کرنا
مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کا سراغ ملتا ہے گفتگو سے
غلام حسین ساجد
………..
عادتاً تم نے کر دیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
گلزار
……….
ہے نوید بہار ہر لب پر
کم نصیبوں کو اعتبار نہیں
حبیب احمد صدیقی
……..
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
حفیظ جونپوری
………..
آنکھوں میں جل رہے تھے دیئے اعتبار کے
احساس ظلمت شب ہجراں نہیں رہا
حنیف اخگر
….
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
امداد امام اثرؔ
……..
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
جاں نثاراختر
………….
خیال یار کے روشن دیے کرو ورنہ
اندھیری رات میں منزل کا اعتبار نہیں
جے کرشن چودھری حبیب
……..
مجھے ہی دیکھ کہ جیتا ہوں تیرے وعدوں پر
یہ کون کہتا ہے وعدوں پہ اعتبار نہیں
جے کرشن چودھری حبیب
……….
جلالؔ عہد جوانی ہے دو گے دل سو بار
ابھی کی توبہ نہیں اعتبار کے قابل
جلالؔ لکھنوی
…………
وعدہ کیوں بار بار کرتے ہو
خود کو بے اعتبار کرتے ہو
جلالؔ لکھنوی
………….
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
جون ایلیا
……….
اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا
جون ایلیا
…………
کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا
خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا
جاوید اختر
……
صورت نہ یوں دکھائے انہیں بار بار چاند
پیدا کرے حسینوں میں کچھ اعتبار چاند
جاوید لکھنوی
……….
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں
جواد شیخ
…………
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
……….
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
جگر مراد آبادی
………..
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
جگر بریلوی
………
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
جگر مراد آبادی
……….
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
جوش ملیح آبادی
………
کیا زمانے کا اعتبار کروں
اب نہیں اپنا اعتبار مجھے
کرامت علی کرامت
………….
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
خمارؔ بارہ بنکوی
……….
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
خواجہ میر درد
……
تو بے وفا ہے ترا اعتبار کون کرے
تمام عمر ترا انتظار کون کرے
ضیغم حمیدی
…………..
میں گھر سے جاؤں تو تالا لگا کے جاتی ہوں
کچھ اس کی شہرتیں کچھ اعتبار اس کا ہے
یاسمین حبیب
…………..
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
یاسمین حمید
……….
یاسؔ اس چرخ زمانہ ساز کا کیا اعتبار
مہرباں ہے آج کل نا مہرباں ہو جائے گا
یگانہ چنگیزی
…………
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ولی محمد ولی
…..
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
وسیم بریلوی
……….
مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر
عمر انصاری
………….
وعدہ کیا تھا پھر بھی نہ آئے مزار پر
ہم نے تو جان دی تھی اسی اعتبار پر
………….
نگاہ شوق کی حیرانیوں کو کیا کہیے
انہیں بلا بھی لیا اعتبار بھی نہ کیا
…..
غیر نے تم کو جاں کہا سمجھے بھی کچھ کہ کیا کہا
یعنی کہ بے وفا کہا جاں کا اعتبار کیا
………..
دنیا ہمیں فریب پہ دیتی رہی فریب
ہم دیکھتے رہے نگہ اعتبار سے
تکمیل رضوی لکھنوی
……..
نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا
قتیل شفائی
…………
کس بات پر تری میں کروں اعتبار ہائے
اقرار یک طرف ہے تو انکار یک طرف
قائم چاندپوری
…………
رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ہیں مگر
گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
پروین شاکر
…………
وعدے کا اعتبار تو ہے واقعی مجھے
یہ اور بات ہے کہ ہنسی آ گئی مجھے
نخشب جارچوی
………..
لفظ بھی جس عہد میں کھو بیٹھے اپنا اعتبار
خامشی کو اس میں کتنا معتبر میں نے کیا
………..
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں
کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
ناطق گلاوٹھی
…………
ابھی کہیں تو کسی کو نہ اعتبار آوے
کہ ہم کو راہ میں اک آشنا نے لوٹ لیا
نظیر اکبرآبادی
………….
کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو
نظیر باقری
……………
رشتوں کا اعتبار وفاؤں کا انتظار
ہم بھی چراغ لے کے ہواؤں میں آئے ہیں
ندا فاضلی
…………….
یقین چاند پہ سورج میں اعتبار بھی رکھ
مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ
ندا فاضلی
……….
ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے
نکہت بریلوی
……….
وعدے اور اعتبار میں ہے ربط باہمی
اس ربط باہمی کا مگر اعتبار کیا
نشور واحدی
………