کتنی خاموش تھی وہ ہجر کی رات
دل کی دھڑکن سے کان پھٹتے تھے
………….
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
………….
ہم لوگ وصال و ہجر پہ روتے ہیں زار و زار
دکھ درد اس سے پوچھئے جسے بھوک کھا گئی
………….
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
………….
پھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
…………………………………
صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن
ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تری آواز کے ساتھ
آسی الدنی
آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے
عبد الرحیم نشتر
پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں
عبد الرحیم نشتر
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر
کسی آواز کا پتھر گرا ہے
عادل رضا منصوری
وہاں پہلے ہی آوازیں بہت تھیں
سو میں نے چپ کرایا خامشی کو
ابھیشیک شکلا
شب بھر اک آواز بنائی صبح ہوئی تو چیخ پڑے
روز کا اک معمول ہے اب تو خواب زدہ ہم لوگوں کا
ابھیشیک شکلا
آوازوں کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے
بنجاروں کی طرح گزارہ کرتا ہوں
ابرار اعظمی
وہ ایک ڈوبتی آواز باز گشت کہ آ
سوال میں نے کیا تھا جواب میں نے دیا
ابو الحسنات حقی
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
عادل منصوری
سحر کی گونج سے آوازۂ جمال ہوا
سو جاگتا رہا اطراف کو جگائے ہوئے
افضال نوید
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی
افضل خان
نہ جانے کیا خرابی آ گئی ہے میرے لہجے میں
نہ جانے کیوں مری آواز بوجھل ہوتی رہتی ہے
احمد کمال پروازی
یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی
اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا
احمد خیال
موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
احمد مشتاق
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
احمد مشتاق
انداز ہو بہ ہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
احمد ندیم قاسمی
یہ کون بولتا ہے مرے دل کے اندروں
آواز کس کی گونجتی ہے اس مکان میں
احمد رضوان
تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز
یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ
چٹک میں غنچے کی وہ صورت جاں فزا تو نہیں
سنی ہے پہلے بھی آواز یہ کہیں میں نے
اختر علی اختر
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
اختر ہوشیارپوری
میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے
علیم صبا نویدی
کوئی آواز نہ آہٹ نہ کوئی ہلچل ہے
ایسی خاموشی سے گزرے تو گزر جائیں گے
علینا عترت
تجھ کو آواز دوں اور دور تلک تو نہ ملے
ایسے سناٹوں سے اکثر مجھے ڈر لگتا ہے
علینا عترت
بن آواز پکاریں ہر دم نام ترا
شاید ہم بھی پاگل ہونے والے ہیں
علینا عترت
ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں
علیم اللہ حالی
صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے
علیم اللہ حالی
اس منزل حیات میں اب گامزن ہے دل
شبلیؔ! جہاں کسی کی بھی آواز پا نہیں
علقمہ شبلی
بے صورت بے جسم آوازیں اندر بھیج رہی ہیں ہوائیں
بند ہیں کمرے کے دروازے لیکن کھڑکی کھلی ہوئی ہے
عمیق حنفی
خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
امیر امام
ہاتھ جس کو لگا نہیں سکتا
اس کو آواز تو لگانے دو
عمار اقبال
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
آنند نرائن ملا
آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی
سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح
امجد اسلام امجد
کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی
انیس احمد انیس
تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں
خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے
انجم سلیمی
ایک آواز تو گونجی تھی افق تا بہ افق
کارواں گم ہے کہاں گرد سفر سے پوچھو
انور معظم
تصور کے سہارے یوں شب غم ختم کی میں نے
جہاں دل کی خلش ابھری تمہیں آواز دی میں نے
انور صابری
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
عرش ملسیانی
وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب
سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا
آرزو لکھنوی
پنبہ در گوش سمجھتے ہیں کہیں ہم کو اسدؔ
اونچی آواز میں جو شعلہ فشاں بولتے ہیں
اسد اعوان
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
اصغر گونڈوی
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
اسرار الحق مجاز
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی کا سماں
تیری آواز کی لرزش ترے لہجے کی تھکن
عظیم مرتضی
چاند کو تم آواز تو دے لو
ایک مسافر تنہا تو ہے
عظیم قریشی
لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے
اظہر ادیب
دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید
آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے
عزیز لکھنوی
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے میں نبیلؔ
روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں
عزیز نبیل
بھید بھری آوازوں کا اک شور بھرا ہے سینے میں
کھل کر سانس نہیں لینے کی شرط ہے گویا جینے میں
عزیز نبیل
یہ بوندیں پہلی بارش کی یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی
اک کوئل باغ میں کوکی ہے آواز یہاں تک آئی ہے
عزیز نبیل
تم نے آواز کو زنجیر سے کسنا چاہا
دیکھ لو ہو گئے اب ہاتھ تمہارے زخمی
عزیز نبیل
اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ
کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں
عزیز نبیل
نبیلؔ آواز بھی اپنی کہاں تھی مدتوں سے
جو تم آئے تو ہم یک لخت محفل ہو گئے ہیں
عزیز نبیل
خامشی ٹوٹے گی آواز کا پتھر بھی تو ہو
جس قدر شور ہے اندر کبھی باہر بھی تو ہو
عزیز نبیل
ایک سناٹا تھا آواز نہ تھی اور نہ جواب
دل میں اتنے تھے سوالات کہ ہم سو نہ سکے
عزیز تمنائی
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
عزم بہزاد
دل کی دیوار گر گئی شاید
اپنی آواز کان میں آئی
باقی صدیقی
کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا
باقی صدیقی
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
بشر نواز
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
بشیر بدر
کمرے ویراں آنگن خالی پھر یہ کیسی آوازیں
شاید میرے دل کی دھڑکن چنی ہے ان دیواروں میں
بشیر بدر
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر
زور سے سانس جو لیتا ہوں تو اکثر شب غم
دل کی آواز عجب درد بھری آتی ہے
بشیر الدین احمد دہلوی
وہاں اب سانس لینے کی صدا آتی ہے مشکل سے
جو زنداں گونجتا رہتا تھا آواز سلاسل سے
بیخود موہانی
آج اس انداز سے تم نے مجھے آواز دی
یک بیک مجھ میں خیال آیا کہ ہاں میں بھی تو ہوں
چراغ شرما
آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا
فیصل عجمی
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
فیض احمد فیض
فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے
فیض احمد فیض
اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز
میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز
فانی بدایونی
یا رب نوائے دل سے یہ کان آشنا سے ہیں
آواز آ ہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی
فانی بدایونی
الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز
یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں
فرحت زاہد
ادھورے لفظ تھے آواز غیر واضح تھی
دعا کو پھر بھی نہیں دیر کچھ اثر میں لگی
فاطمہ حسن
شکست دل کی ہر آواز حشر آثار ہوتی ہے
مگر سوئی ہوئی دنیا کہاں بیدار ہوتی ہے
فگار اناوی
دل چوٹ سہے اور اف نہ کرے یہ ضبط کی منزل ہے لیکن
ساغر ٹوٹے آواز نہ ہو ایسا تو بہت کم ہوتا ہے
فگار اناوی
وہ کچھ روٹھی ہوئی آواز میں تجدید دل داری
نہیں بھولا ترا وہ التفات سر گراں اب تک
فراق گورکھپوری
میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے
غمگین دہلوی
نہ جانے کس طرح بستر میں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں
وہ آوازیں جنہیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں
غضنفر
کل تک جو شفاف تھے چہرے آوازوں سے خالی تھے
آڑی ترچھی سرخ لکیریں ان پر بھی اب دیکھو گے
غضنفر
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
غلام محمد قاصر
میرے افکار کی رعنائیاں تیرے دم سے
میری آواز میں شامل تری آواز بھی ہے
غلام ربانی تاباں
آنسوؤں سے کوئی آواز کو نسبت نہ سہی
بھیگتی جائے تو کچھ اور نکھرتی جائے
غلام ربانی تاباں
شب کی تنہائی میں ابھری ہوئی آواز جرس
صبح گائی کا گجر ہو یہ ضروری تو نہیں
حبیب ہاشمی
یوں آتی ہیں اب میرے تنفس کی صدائیں
جس طرح سے دیتا ہے کوئی نوحہ گر آواز
حبیب موسوی
جیسے ویرانے سے ٹکرا کے پلٹتی ہے صدا
دل کے ہر گوشے سے آئی تری آواز مجھے
حفیظ جالندھری
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
حفیظ میرٹھی
بھلا تو اور گھر آئے مرے کیوں کر یقیں کر لوں
تخیل کیوں نہ ہو میرا تری آواز پا کیوں ہو
حکیم محمد اجمل خاں شیدا
دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی
حماد نیازی
تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں
حنیف کیفی
چہرے سے نہ جانے گا آواز سے جانے گا
ہر شخص مجھے میرے انداز سے جانے گا
ہلال بدایونی
اے شام غم کی گہری خموشی تجھے سلام
کانوں میں ایک آئی ہے آواز دور کی
ہیرا لال فلک دہلوی
یاد اتنا ہے مرے لب پہ فغاں آئی تھی
پھر خدا جانے کہاں دل کی یہ آواز گئی
ہیرا لال فلک دہلوی
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
حیات امروہوی
لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی
زندگی آواز ہی آواز ہے
حیات امروہوی
سیٹی کی آواز سنی اور سارا ماضی لوٹ آیا
پس منظر میں ریل نہیں ہے پورا ایک افسانہ ہے
افتخار حیدر
ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو
مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو
اجتبیٰ رضوی
رات دن ناقوس کہتے ہیں بآواز بلند
دیر سے بہتر ہے کعبہ گر بتوں میں تو نہیں
امام بخش ناسخ
درد دل پہلے تو وہ سنتے نہ تھے
اب یہ کہتے ہیں ذرا آواز سے
جلیل مانک پوری
اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں
ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں
جاوید اختر
رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب
میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے
جاوید ناصر
کن کن کی آتمائیں پہاڑوں میں قید ہیں
آواز دو تو بجتے ہیں پتھر کے دف یہاں
جاوید ناصر
خطا کس کی ہے تم ہی وقت سے باہر رہے شاہیںؔ
تمہیں آواز دینے ایک لمحہ دور تک آیا
جاوید شاہین
کیا خبر تھی خلش ناز نہ جینے دے گی
یہ تری پیار کی آواز نہ جینے دے گی
جگر مراد آبادی
کوئی آیا تری جھلک دیکھی
کوئی بولا سنی تری آواز
جوش ملیح آبادی
کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی
کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں
کبیر اجمل
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
کبیر اجمل
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
کفیل آزر امروہوی
خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے
وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے
کیف احمد صدیقی
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
کیف بھوپالی
میری آواز کو آواز نے تقسیم کیا
ریڈیو میں ہوں ٹیلیفون کے اندر ہوں میں
کاوش بدری
یہ وقفہ ساعتوں کا چند صدیوں کے برابر ہے
وہ اب آواز دیتے ہیں تو پہچانی نہیں جاتی
خالد حسن قادری
لفظ رنگوں میں نہائے ہوئے گھر میں آئے
تیری آواز کی تصویر میں مصروف تھا میں
خالد ملک ساحل
منجدھار میں ناؤ ڈوب گئی تو موجوں سے آواز آئی
دریائے محبت سے کوثرؔ یوں پار اتارا کرتے ہیں
کوثر نیازی
کون ہو سکتا ہے آنے والا
ایک آواز سی آئی تھی ابھی
کرار نوری
منتظر ہوں تری آواز ث تصویر تلک
ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے
کامران نفیس
اس کے انداز سے جھلکتا تھا کوئی کردار داستانوں کا
اس کی آواز سے بکھرتی تھی کوئی خوشبو کسی کہانی کی
خاور احمد
رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے
بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے
خوشبیر سنگھ شادؔ
نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں
شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے
کمار پاشی
بے بسی کا زہر سینے میں اتر جاتا ہے کیا
میں جسے آواز دیتا ہوں وہ مر جاتا ہے کیا
لیاقت علی عاصم
پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے
ظفر اقبال
روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
ظفر اقبال
سال ہا سال سے خاموش تھے گہرے پانی
اب نظر آئے ہیں آواز کے آثار مجھے
ظفر اقبال
کوئی دستک کوئی آہٹ نہ شناسا آواز
خاک اڑتی ہے در دل پہ بیاباں کی طرح
ظہیر کاشمیری
صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن
ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تری آواز کے ساتھ
آسی الدنی
……….
آواز دے رہا ہے اکیلا خدا مجھے
میں اس کو سن رہا ہوں ہواؤں کے کان سے
عبد الرحیم نشتر
…………
پتھر نے پکارا تھا میں آواز کی دھن میں
موجوں کی طرح چاروں طرف پھیل گیا ہوں
عبد الرحیم نشتر
….
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر
کسی آواز کا پتھر گرا ہے
عادل رضا منصوری
…………
وہاں پہلے ہی آوازیں بہت تھیں
سو میں نے چپ کرایا خامشی کو
ابھیشیک شکلا
………
شب بھر اک آواز بنائی صبح ہوئی تو چیخ پڑے
روز کا اک معمول ہے اب تو خواب زدہ ہم لوگوں کا
ابھیشیک شکلا
………..
آوازوں کا بوجھ اٹھائے صدیوں سے
بنجاروں کی طرح گزارہ کرتا ہوں
ابرار اعظمی
……….
وہ ایک ڈوبتی آواز باز گشت کہ آ
سوال میں نے کیا تھا جواب میں نے دیا
ابو الحسنات حقی
………….
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی
عادل منصوری
………..
سحر کی گونج سے آوازۂ جمال ہوا
سو جاگتا رہا اطراف کو جگائے ہوئے
افضال نوید
………..
مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی
محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی
افضل خان
………..
نہ جانے کیا خرابی آ گئی ہے میرے لہجے میں
نہ جانے کیوں مری آواز بوجھل ہوتی رہتی ہے
احمد کمال پروازی
………….
یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی
اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا
احمد خیال
……………….
موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
احمد مشتاق
……….
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
احمد مشتاق
……..
انداز ہو بہ ہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
احمد ندیم قاسمی
……….
یہ کون بولتا ہے مرے دل کے اندروں
آواز کس کی گونجتی ہے اس مکان میں
احمد رضوان
………..
تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز
یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ
……………
چٹک میں غنچے کی وہ صورت جاں فزا تو نہیں
سنی ہے پہلے بھی آواز یہ کہیں میں نے
اختر علی اختر
………….
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
اختر ہوشیارپوری
………….
میں پھر رہا ہوں شہر میں سڑکوں پہ غالباً
آواز دے کے مجھ کو مرا گھر پکار لے
علیم صبا نویدی
…………
کوئی آواز نہ آہٹ نہ کوئی ہلچل ہے
ایسی خاموشی سے گزرے تو گزر جائیں گے
علینا عترت
……………
تجھ کو آواز دوں اور دور تلک تو نہ ملے
ایسے سناٹوں سے اکثر مجھے ڈر لگتا ہے
علینا عترت
…………
بن آواز پکاریں ہر دم نام ترا
شاید ہم بھی پاگل ہونے والے ہیں
علینا عترت
……….
ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں
علیم اللہ حالی
…….
صداؤں کے جنگل میں وہ خامشی ہے
کہ میں نے ہر آواز تیری سنی ہے
علیم اللہ حالی
…….
اس منزل حیات میں اب گامزن ہے دل
شبلیؔ! جہاں کسی کی بھی آواز پا نہیں
علقمہ شبلی
…………
بے صورت بے جسم آوازیں اندر بھیج رہی ہیں ہوائیں
بند ہیں کمرے کے دروازے لیکن کھڑکی کھلی ہوئی ہے
عمیق حنفی
………
خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
امیر امام
…….
ہاتھ جس کو لگا نہیں سکتا
اس کو آواز تو لگانے دو
عمار اقبال
……
فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے
ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے
آنند نرائن ملا
…….
آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی
سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح
امجد اسلام امجد
…………
کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی
انیس احمد انیس
……..
تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں
خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے
انجم سلیمی
……….
ایک آواز تو گونجی تھی افق تا بہ افق
کارواں گم ہے کہاں گرد سفر سے پوچھو
انور معظم
……….
تصور کے سہارے یوں شب غم ختم کی میں نے
جہاں دل کی خلش ابھری تمہیں آواز دی میں نے
انور صابری
…………
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
عرش ملسیانی
………
وائے غربت کہ ہوئے جس کے لئے خانہ خراب
سن کے آواز بھی گھر سے نہ وہ باہر نکلا
آرزو لکھنوی
………..
پنبہ در گوش سمجھتے ہیں کہیں ہم کو اسدؔ
اونچی آواز میں جو شعلہ فشاں بولتے ہیں
اسد اعوان
……………
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
اصغر گونڈوی
………….
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
اسرار الحق مجاز
…….
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی کا سماں
تیری آواز کی لرزش ترے لہجے کی تھکن
عظیم مرتضی
………..
چاند کو تم آواز تو دے لو
ایک مسافر تنہا تو ہے
عظیم قریشی
………
لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے
اظہر ادیب
………
دنیا کا خون دور محبت میں ہے سفید
آواز آ رہی ہے لب جوئے شیر سے
عزیز لکھنوی
………
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے میں نبیلؔ
روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں
عزیز نبیل
……..
بھید بھری آوازوں کا اک شور بھرا ہے سینے میں
کھل کر سانس نہیں لینے کی شرط ہے گویا جینے میں
عزیز نبیل
…………..
یہ بوندیں پہلی بارش کی یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی
اک کوئل باغ میں کوکی ہے آواز یہاں تک آئی ہے
عزیز نبیل
………
تم نے آواز کو زنجیر سے کسنا چاہا
دیکھ لو ہو گئے اب ہاتھ تمہارے زخمی
عزیز نبیل
……..
اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ
کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں
عزیز نبیل
………..
نبیلؔ آواز بھی اپنی کہاں تھی مدتوں سے
جو تم آئے تو ہم یک لخت محفل ہو گئے ہیں
عزیز نبیل
…….
خامشی ٹوٹے گی آواز کا پتھر بھی تو ہو
جس قدر شور ہے اندر کبھی باہر بھی تو ہو
عزیز نبیل
……..
ایک سناٹا تھا آواز نہ تھی اور نہ جواب
دل میں اتنے تھے سوالات کہ ہم سو نہ سکے
عزیز تمنائی
……..
کل سامنے منزل تھی پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا
عزم بہزاد
…………
دل کی دیوار گر گئی شاید
اپنی آواز کان میں آئی
باقی صدیقی
……..
کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا
باقی صدیقی
…….
بہت تھا خوف جس کا پھر وہی قصا نکل آیا
مرے دکھ سے کسی آواز کا رشتا نکل آیا
بشر نواز
…………..
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
بشیر بدر
………..
کمرے ویراں آنگن خالی پھر یہ کیسی آوازیں
شاید میرے دل کی دھڑکن چنی ہے ان دیواروں میں
بشیر بدر
…….
پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر
…………
زور سے سانس جو لیتا ہوں تو اکثر شب غم
دل کی آواز عجب درد بھری آتی ہے
بشیر الدین احمد دہلوی
……
وہاں اب سانس لینے کی صدا آتی ہے مشکل سے
جو زنداں گونجتا رہتا تھا آواز سلاسل سے
بیخود موہانی
……….
آج اس انداز سے تم نے مجھے آواز دی
یک بیک مجھ میں خیال آیا کہ ہاں میں بھی تو ہوں
چراغ شرما
………
آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں
لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا
فیصل عجمی
…….
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
فیض احمد فیض
………..
فریب آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آواز پا سمجھے
فیض احمد فیض
………
اب نئے سر سے چھیڑ پردۂ ساز
میں ہی تھا ایک دکھ بھری آواز
فانی بدایونی
………..
یا رب نوائے دل سے یہ کان آشنا سے ہیں
آواز آ ہی ہے یہ کب کی سنی ہوئی
فانی بدایونی
…………..
الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز
یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں
فرحت زاہد
………..
ادھورے لفظ تھے آواز غیر واضح تھی
دعا کو پھر بھی نہیں دیر کچھ اثر میں لگی
فاطمہ حسن
……
شکست دل کی ہر آواز حشر آثار ہوتی ہے
مگر سوئی ہوئی دنیا کہاں بیدار ہوتی ہے
فگار اناوی
………
دل چوٹ سہے اور اف نہ کرے یہ ضبط کی منزل ہے لیکن
ساغر ٹوٹے آواز نہ ہو ایسا تو بہت کم ہوتا ہے
فگار اناوی
………
وہ کچھ روٹھی ہوئی آواز میں تجدید دل داری
نہیں بھولا ترا وہ التفات سر گراں اب تک
فراق گورکھپوری
…………
میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے
غمگین دہلوی
…….
نہ جانے کس طرح بستر میں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں
وہ آوازیں جنہیں ہم روز باہر چھوڑ آتے ہیں
غضنفر
……….
کل تک جو شفاف تھے چہرے آوازوں سے خالی تھے
آڑی ترچھی سرخ لکیریں ان پر بھی اب دیکھو گے
غضنفر
………….
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
غلام محمد قاصر
……
میرے افکار کی رعنائیاں تیرے دم سے
میری آواز میں شامل تری آواز بھی ہے
غلام ربانی تاباں
…….
آنسوؤں سے کوئی آواز کو نسبت نہ سہی
بھیگتی جائے تو کچھ اور نکھرتی جائے
غلام ربانی تاباں
…….
شب کی تنہائی میں ابھری ہوئی آواز جرس
صبح گائی کا گجر ہو یہ ضروری تو نہیں
حبیب ہاشمی
……..
یوں آتی ہیں اب میرے تنفس کی صدائیں
جس طرح سے دیتا ہے کوئی نوحہ گر آواز
حبیب موسوی
……….
جیسے ویرانے سے ٹکرا کے پلٹتی ہے صدا
دل کے ہر گوشے سے آئی تری آواز مجھے
حفیظ جالندھری
…………..
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
حفیظ میرٹھی
………
بھلا تو اور گھر آئے مرے کیوں کر یقیں کر لوں
تخیل کیوں نہ ہو میرا تری آواز پا کیوں ہو
حکیم محمد اجمل خاں شیدا
……….
دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی
حماد نیازی
……….
تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں
حنیف کیفی
…….
چہرے سے نہ جانے گا آواز سے جانے گا
ہر شخص مجھے میرے انداز سے جانے گا
ہلال بدایونی
……
اے شام غم کی گہری خموشی تجھے سلام
کانوں میں ایک آئی ہے آواز دور کی
ہیرا لال فلک دہلوی
………
یاد اتنا ہے مرے لب پہ فغاں آئی تھی
پھر خدا جانے کہاں دل کی یہ آواز گئی
ہیرا لال فلک دہلوی
…………
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
حیات امروہوی
…….
لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی
زندگی آواز ہی آواز ہے
حیات امروہوی
…….
سیٹی کی آواز سنی اور سارا ماضی لوٹ آیا
پس منظر میں ریل نہیں ہے پورا ایک افسانہ ہے
افتخار حیدر
…….
ہوں وہ قطرہ کہ نہیں یاد سمندر مجھ کو
مگر آتی ہے اک آواز برابر مجھ کو
اجتبیٰ رضوی
…………
رات دن ناقوس کہتے ہیں بآواز بلند
دیر سے بہتر ہے کعبہ گر بتوں میں تو نہیں
امام بخش ناسخ
…………
درد دل پہلے تو وہ سنتے نہ تھے
اب یہ کہتے ہیں ذرا آواز سے
جلیل مانک پوری
………….
اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں
ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں
جاوید اختر
…………..
رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب
میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے
جاوید ناصر
………
کن کن کی آتمائیں پہاڑوں میں قید ہیں
آواز دو تو بجتے ہیں پتھر کے دف یہاں
جاوید ناصر
………….
خطا کس کی ہے تم ہی وقت سے باہر رہے شاہیںؔ
تمہیں آواز دینے ایک لمحہ دور تک آیا
جاوید شاہین
……….
کیا خبر تھی خلش ناز نہ جینے دے گی
یہ تری پیار کی آواز نہ جینے دے گی
جگر مراد آبادی
……….
کوئی آیا تری جھلک دیکھی
کوئی بولا سنی تری آواز
جوش ملیح آبادی
…………
کوئی صدا کوئی آوازۂ جرس ہی سہی
کوئی بہانہ کہ ہم جاں نثار کرتے رہیں
کبیر اجمل
………
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
کبیر اجمل
………….
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
کفیل آزر امروہوی
…………
خدا معلوم کس آواز کے پیاسے پرندے
وہ دیکھو خامشی کی جھیل میں اترے پرندے
کیف احمد صدیقی
………..
میں نے جب پہلے پہل اپنا وطن چھوڑا تھا
دور تک مجھ کو اک آواز بلانے آئی
کیف بھوپالی
………
میری آواز کو آواز نے تقسیم کیا
ریڈیو میں ہوں ٹیلیفون کے اندر ہوں میں
کاوش بدری
………
یہ وقفہ ساعتوں کا چند صدیوں کے برابر ہے
وہ اب آواز دیتے ہیں تو پہچانی نہیں جاتی
خالد حسن قادری
………
لفظ رنگوں میں نہائے ہوئے گھر میں آئے
تیری آواز کی تصویر میں مصروف تھا میں
خالد ملک ساحل
…….
منجدھار میں ناؤ ڈوب گئی تو موجوں سے آواز آئی
دریائے محبت سے کوثرؔ یوں پار اتارا کرتے ہیں
کوثر نیازی
……….
کون ہو سکتا ہے آنے والا
ایک آواز سی آئی تھی ابھی
کرار نوری
…….
منتظر ہوں تری آواز ث تصویر تلک
ایک وقفہ ہی تو درکار تھا ملنے کے لیے
کامران نفیس
………
اس کے انداز سے جھلکتا تھا کوئی کردار داستانوں کا
اس کی آواز سے بکھرتی تھی کوئی خوشبو کسی کہانی کی
خاور احمد
……..
رگوں میں زہر خاموشی اترنے سے ذرا پہلے
بہت تڑپی کوئی آواز مرنے سے ذرا پہلے
خوشبیر سنگھ شادؔ
…………
نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں
شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے
کمار پاشی
………………
بے بسی کا زہر سینے میں اتر جاتا ہے کیا
میں جسے آواز دیتا ہوں وہ مر جاتا ہے کیا
لیاقت علی عاصم
………..
پوری آواز سے اک روز پکاروں تجھ کو
اور پھر میری زباں پر ترا تالا لگ جائے
ظفر اقبال
………
روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
ظفر اقبال
…….
سال ہا سال سے خاموش تھے گہرے پانی
اب نظر آئے ہیں آواز کے آثار مجھے
ظفر اقبال
……….
کوئی دستک کوئی آہٹ نہ شناسا آواز
خاک اڑتی ہے در دل پہ بیاباں کی طرح
ظہیر کاشمیری
………