بگڑی ہوئی زندگی کی اتنی سی کہانی ہے
کچھ بچپن سے نکمے تھے کچھ فیسبُک کی مہربانی ہے
………….
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی
………….
ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
………….
یہ زندگی کچھ بھی ہو مگر اپنے لئے تو
کچھ بھی نہیں بچوں کی شرارت کے علاوہ
………….
اس کو جب کوئی، بچھڑنے کا بہانہ نہ ملا
اس نے بچپن کی لڑائی کو دوبارہ چھیڑا
بات چل نکلے گی پھر اقرار کی انکار کی
پھر وہی بچپن کے بھولے گیت گائے جائیں گے
عازم کوہلی
…………
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے
عبد الاحد ساز
………..
میں نے بچپن کی خوشبوئے نازک
ایک تتلی کے سنگ اڑائی تھی
افضال نوید
…………
الماری میں تصویریں رکھتا ہوں
اب بچپن اور بڑھاپا ایک ہوئے
اختر ہوشیارپوری
…………
میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی
آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں
عالم خورشید
…………
ہم کو بچپن ہی سے اک شوق تھا بربادی سے
نام لکھ لکھ کے مٹاتے تھے زمیں پر اپنا
امیر رضا مظہری
………
بچپن نے ہمیں دی ہے یہ شیرینیٔ گفتار
اردو نہیں ہم ماں کی زباں بول رہے ہیں
آذر بارہ بنکوی
………
ملتی ہے خوشی سب کو جیسے ہی کہیں سے بھی
بھولی ہوئی بچپن کی تصویر نکلتی ہے
اظہر ہاشمی سبقت
………..
جہاں ضدیں کیا کرتا تھا بچپنا میرا
کہاں سے لاؤں کھلونوں کی ان دکانوں کو
اظہر عنایتی
…………
بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آ جاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
عذرا نقوی
……………
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بشیر بدر
………..
کئی ستاروں کو میں جانتا ہوں بچپن سے
کہیں بھی جاؤں مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
بشیر بدر
……………..
وہ ماتھا کا مطلع ہو کہ ہونٹھوں کے دو مصرع
بچپن سے غزل ہی میری محبوبہ رہی ہے
بشیر بدر
………..
حسیں یادیں وہ بچپن کی کہیں دل سے نہ کھو جائیں
میں اپنے آشیانے میں کھلونے اب بھی رکھتا ہوں
بشیر مہتاب
………….
ان سے وابستہ ہے مرا بچپن
میں کھلونوں کی قدر کرتا ہوں
بشیر مہتاب
……….
کتنا آسان تھا بچپن میں سلانا ہم کو
نیند آ جاتی تھی پریوں کی کہانی سن کر
بھارت بھوشن پنت
…………
مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے
غریبی کا کھرا سونا چمکتا ہے
فراغ روہوی
………
بچپن سے لین دین تھا اس کی سرشت میں
باتوں میں کاروبار سے آگے نہ جا سکا
فرحت زاہد
……….
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم
افتخار عارف
………
بوڑھی ماں کا شاید لوٹ آیا بچپن
گڑیوں کا انبار لگا کر بیٹھ گئی
ارشاد خان سکندر
………….
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
جاوید اختر
………
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی
جاوید اختر
…………..
اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا
جاوید اختر
……….
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
کیفی اعظمی
…………
بنے ہیں کام سب الجھن سے میرے
یہی اطوار ہیں بچپن سے میرے
کاشف حسین غائر
…………
کاغذ کی ناؤ بھی ہے کھلونے بھی ہیں بہت
بچپن سے پھر بھی ہاتھ ملانا محال ہے
ظہیرؔ غازی پوری
……
زخم ہی تیرا مقدر ہیں دل تجھ کو کون سنبھالے گا
اے میرے بچپن کے ساتھی میرے ساتھ ہی مر جانا
زیب غوری
………….
میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے
تنویر سپرا
………..
اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
نشتر خانقاہی
………
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمر رواں
مرا بچپن مرے جگنو مری گڑیا لا دے
نوشی گیلانی
…………
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
نشور واحدی
……….
ابھی دکھاؤ نہ تصویر زندگی اس کو
یہ بچپنا ہے ابھی مسکرانا چاہتا ہے
مجاہد فراز
………….
مرے بچے ترا بچپن تو میں نے بیچ ڈالا
بزرگی اوڑھ کر کاندھے ترے خم ہو گئے ہیں
مصور سبزواری
……………
بچپن میں آکاش کو چھوتا سا لگتا تھا
اس پیپل کی شاخیں اب کتنی نیچی ہیں
مظفر حنفی
…………
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
مضطر خیرآبادی
…………
کون کہے معصوم ہمارا بچپن تھا
کھیل میں بھی تو آدھا آدھا آنگن تھا
شارق کیفی
………….
بچپن میں شوق سے جو گھروندے بنائے تھے
اک ہوک سی اٹھی انہیں مسمار دیکھ کر
شفا کجگاؤنوی
………
سنو میری زندگی کا فلسفہ
عنوان یہ ہے کہ ڈر لگتا ہے
ابھی عمرِ غائبانہ میں ہوں. مگر
ماں باپ کی مفلسی کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے
اب پہنچا ہوں عمرِ بچپن میں. مگر
شیطان صفت اشرف المخلوقات سے ڈر لگتا ہے
شباب کی عمر بڑی لطفِ زندگی ہے. مگر
جوانی میں مرنے سے ڈر لگتا ہے
علم کی تلاش میں نکلا چین کی طرف.مگر
ڈگری تو مل گئی, بے روزگاری سے ڈر لگتا ہے
شبابِ عمر گزر گئی اب آگیا بڑھاپا. مگر
نہ خدا سے ڈرے اور نہ اب ڈر لگتا ہے
رحمت خدا کا سبب تلاش کر رہا ہوں.مگر
ہے نہیں ساتھ اب جسم و جاں کا! ڈر لگتا ہے
ہے امید کہ آغوش رحمت میں آ جاوں گا. مگر
دھتکار جانے کے خوف سے ڈر لگتا ہے.
………..
کاش میں پلٹ جاؤں بچپن کی اس وادی میں،
جہاں نہ کوئ ضرورت تھی نہ کوئ ضروری تھا۔۔۔۔
………….
جو میری روح کو عشق کا جھولا جھلاتی ہے وہ میری ماں ہے
جو خود روئی بھی ہو تو مجھکو ہنساتی ہے وہ میری ماں ہے
میری ہستی میں جتنا ظرف ہے اس سے ہی ملا مجھکو
سرا مجھکو عزت کو جو پکڑاتی ہے وہ میری ماں ہے
میرا بچپن ہے جوانی ہے جو میری ساری حیاتی ہے
جو سانسوں کو میری ہر روز بڑھاتی ہے وہ میری ماں ہے
میں اسکی انگلیوں میں ہاتھوں کو رکھ کے بیٹھا رہتا ہوں
میرا سر رکھ کے گودی میں جو سہلاتی ہے وہ میری ماں ہے
میرے دل میں جو رہتی ہے میری آنکھوں کو پڑھتی ہے
دبا کے سر میرا جو پھر مجھے لوری سناتی ہے وہ میری ماں ہے
میرا بیٹا ہے چندا سا جو کہتی ہے یہ دنیا کو
میری ہستی کو عقلِ جہاں جو پھر بتاتی ہے وہ میری ماں ہے
جو کہتی ہے تیرا بابا بھی بالکل تیرے جیسا تھا
جو میری عادات کو ویسا بناتی ہے وہ میری ماں ہے
آفتاب شاہ
………..
“””بچپن کی سب سے بڑی غلط فہمی یہی تھی “”
کہ بڑے ہوتے ہی زندگی بڑی مزے دار ہو جاۓ گی.. ✨✨
…..
بچپن کی باتیں کبھی مت بھولو
دعا کرتی ہوں نمازیں مت چھوڈو
………..
بچپن کــی محبت کو دل سے جدا نہ کرنا ..
جب میری یاد آۓ ملنے کی دعا کرنا..
………
بچپن سے میرا سپنا تھا زندگی میں کہ کوئی ایسا ملے
جیسے پاکر میں سب کچھ بھول جاؤں اور پھر اک دن
مجھے موبائل مل گیا
………
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
……….
میرا بچپن
جانے بچن میرا وہ کہاں رہ گیا
اس کی یادیں رہیں وہ کہاں رہ گیا
میرے اپنے پیارے کہاں چل بسے
میرے گھر کا چمن وہ کہاں رہ گیا
میرا چھوٹا سا بستہ تختی و قلم
پڑھنے لکھنے کا سامان کہاں رہ گیا
اپنا سبق وہ فرفر سنانا
بھلانا سنانا کہاں رہ گیا
کبھی بارش میں آنااسکول سے
کچے راستوں پر چلنا کہاں رہ گیا
سب کھلونے میرے تھے خزانہ میرا
وہ خزانہ و ساماں کہاں رہ گیا
یاد آتی ھے شدت سے بچپن کی اب
جانے رستے میں رک کر کہاں رہ گیا
وہ چڑیوں کا آنا میرے صحن میں
دانہ دنکأ کھلانا کہاں رہ گیا
لاکھ چاہا میں اس کو بھلا دوں مگر
وہ خیالوں میں آ کر کہاں رہ گیا
فقط یادوں میں اب رونقیں رہ گئیں
لکھنا پڑھنا پڑھانا کہاں رہ گیا
رفتہ رفتہ ھی بڑھتے رھے فاصلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یادوں میں ان کا گماں رہ گیا
سال پر سال گنتے چلے آئے ہیں
زندگی کا سفر اب کہاں رہ گیا
وہ رستے ؤہ گلیاں وہ پگڈنڈیاں
میرے گھر کا شجر وہ کہا ں رہ گیأ
لہلہاتے گلابوں کا موسم کہاں
ڑرد پھولون کا منظر کہا ں رہ گیا
میرا بچپن کوئی مجھ کو لا دے ذرا
انور جانے وہ پیچھے کہاں رہ گیا
مختار انور
………
کوئی شکایت نہیں تجھ سے اے عمرِ رواں
میرا بچپن میری گڑیا میرا جگنو لا دے
………
آج تک کبھی کسی کھانے میں پھر وہ زائقہ نا پایا
بچپن میں جو کھانا میرے باپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے کِھلایا
……….
کچھ دوست ابھی بھی یاد آتے ہیں
کچھ باتیں ایسی بھی ہے جو یاد آتی ہیں
وہ ساتھ گزرا بچپن ابھی بھی یاد آتا ہیں
وہ اسکول کے مستی کے دن ابھی بھی یاد آتے ہیں
بس یہی دعا کرتا ہوں خدا سے میں
میرے دوست جہاں بھی ہو خوش ہوں
عمیر شیخ سونالوی
………….
دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں
یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں
آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے
………..
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم
………
وہ رُت بھی آںٸ کہ میں پھول کی سہیلی ہوںٸ
مہک میں چمپاکلی ، روپ میں چنبیلی ہوںٸ ۔۔
وہ سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں
یہ رُت تو ہے مرے بچپن کی ساتھ کھیلی ہوںٸ
زمیں پہ پاٶں نہیں پڑ رہے تکبر سے ۔۔۔
نگارِ غم کوںٸ دُلہن نٸ نویلی ہوںٸ ۔۔
………….
کچھ نہیں چاہئیے تجھ سے اے میری عمرِ رواں
میرا بچپن میرے جگنو میری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ھوں
کوئی چہرا تو میرے شہر میں ایسا لا دے
کشتیِ جان تو بھنور میں ھے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے✍
………..
گاؤں میں عید پھرا کرتی تھی گلیاں گلیاں
اور اس شہر میں تھک کر یوں ہی سو جاتی ہے
پہلے ہنستی تھی ہنساتی تھی کھلاتی تھی مجھے
اب تو وہ پاس بھی آتی ہے تو رو جاتی ہے
کتنی مستانہ سی تھی عید مرے بچپن کی
اب خیالوں میں بھی لاتا ہوں تو کھو جاتی ہے
ہم کبھی عید مناتے تھے منانے کی طرح
اب تو بس وقت گزرتا ہے تو ہو جاتی ہے
ہم بڑے ہوتے گئے عید کا بچپن نہ گیا
یہ تو بچوں کی ہے بچوں ہی کی ہو جاتی ہے
………..
عید تو بچپن میں منائی جاتی تھی اب تو گزاری جاتی ہے
ازقلم رمشا
…………..
میں جوانی میں یوں خوار نہ ہوتا
تم جو بچپن میں_مر گئی ہوتی ✍
………
اُس کے ہاتھ میں جو خنجر ہے زیادہ تیز ھے۔
اور پھر اُس کا نشانہ بچپن سے ہی تیز ہے۔
جب کبھی اُس پار جانے کا خیال آتا تھا۔
کوئی دھیرے سے کہتا تھا کہ دریا تیز ھے۔
آج اُس سے ملنا تھا بچھڑ جانے کی نیت سے۔
آج بھی وہ دیر سے پہنچا کتنا تیز ہے۔
آج اُسے چومہ ہنو تو پتا چلا ہے۔
چائے اچھی ہے پر تھوڑا میٹھا تیز ہے۔
………..