Bharosa Poetry

عشق کو ایک عمر چاہئے اور

عمر کا کوئی اعتبار نہیں

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے

نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا

میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں

مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں