عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن
تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے
عادتاً تم نے کر دیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے
نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا
میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں
مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں