Dushman Poetry

آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی
آل احمد سرور
…………..

وہ اب بھی دل دکھا دیتا ہے میرا
وہ میرا دوست ہے دشمن نہیں ہے
ابھیشیک کمار امبر
………..

کسی کو کوستے کیوں ہو دعا اپنے لیے مانگو
تمہارا فائدہ کیا ہے جو دشمن کا ضرر ہوگا
آغا اکبرآبادی
…………..

اب تو ہر ایک اداکار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو دشمن سے نہیں یار سے ڈر لگتا ہے
افضل الہ آبادی
………….

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
احمد فراز
………..

کسی دشمن کا کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے مرا دوست کماں کھینچتا ہے
احمد فراز
……….

ہمیشہ دل ہوس انتقام پر رکھا
خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا
احمد جاوید
…………

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
احمد ندیم قاسمی
………

یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں
یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے
احمد صغیر صدیقی
……….

ان سے زندہ ہے یہ احساس کہ زندہ ہوں میں
شہر میں کچھ مرے دشمن ہیں بہت اچھا ہے
احمد وصی
…………..

دشمنی کو برا نہ کہہ اے دوست
دیکھ کیا دوستی ہے غور سے دیکھ
اختر انصاری اکبرآبادی
………….

دشمن جاں ہی سہی ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی
اختر سعید خان
………..

پرانے وقتوں کے کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں
بڑا وہی ہے جو دشمن کو بھی معاف کرے
اختر شاہجہانپوری
………..

یہ دشمنی ہے ساقی یا دوستی ہے ساقی
اوروں کو جام دینا مجھ کو دکھا دکھا کے
علی جواد زیدی
………..

راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
الطاف حسین حالی
……

وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں
امیر مینائی
……..

پوچھا ہے غیر سے مرے حال تباہ کو
اظہار دوستی بھی کیا دشمنی کے ساتھ
امیر قزلباش
……….

وفا کی آڑ میں کیا کیا ہوئی جفا ہم پر
جو دوستی یہی ٹھہری تو دشمنی کیا ہے
امجد نجمی
…………

میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں
انور مسعود
…….

اللہ اللہ یہ فضائے دشمن مہر و وفا
آشنا کے نام سے ہوتا ہے برہم آشنا
انور صابری
……….

موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
عرش ملسیانی
……………….

عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں
سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف
عرش ملسیانی
…………..

کم نہ تھی تیغ سے ادائے خرام
دوست دشمن کی شان سے نکلا
آرزو لکھنوی
………..

اپنے بیگانے سے اب مجھ کو شکایت نہ رہی
دشمنی کر کے مرے دوست نے مارا مجھ کو
اسد علی خان قلق
…………

اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے
مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں
اظہر ادیب
………

لوگو ہم تو ایک ہی صورت میں ہتھیار اٹھاتے ہیں
جب دشمن ہو اپنے جیسا خود سر بھی اور ہمسر بھی
اظہر ادیب
…………….

پرانے عہد میں بھی دشمنی تھی
مگر ماحول زہریلا نہیں تھا
اظہر عنایتی
……..

مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے
میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں
باقر مہدی
………….

اے عشق تو ہر چند مرا دشمن جاں ہو
مرنے کا نہیں نام کا میں اپنے بقاؔ ہوں
بقا اللہ بقاؔ
………

سب دوست مصلحت کے دکانوں میں بک گئے
دشمن تو پرخلوص عداوت میں اب بھی ہے
باقی احمد پوری
………….

دوست ہر عیب چھپا لیتے ہیں
کوئی دشمن بھی ترا ہے کہ نہیں
باقی صدیقی
………

سر بکف ہند کے جاں باز وطن لڑتے ہیں
تیغ نو لے صف دشمن میں گھسے پڑتے ہیں
برق دہلوی
………….

سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں اپنا
وہی ہے دشمن جاں میرا سب سے بڑھ کر آج
برقی اعظمی
…………

دشمن دل ہی نہیں دشمن جاں ہوتا ہے
اف وہ احساس جو پیری میں جواں ہوتا ہے
بشیر درانی
…………..

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
بشیر بدر
………

دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم
تم بھی تھک جاؤ گے ہم بھی تھک جائیں گے
بشیر بدر
……….

مخالفت سے مری شخصیت سنورتی ہے
میں دشمنوں کا بڑا احترام کرتا ہوں
بشیر بدر
…………

لڑا کر آنکھ اس سے ہم نے دشمن کر لیا اپنا
نگہ کو ناز کو انداز کو ابرو کو مژگاں کو
بہادر شاہ ظفر
…………

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے
ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے
بیدل حیدری
……….

دشمن کے گھر سے چل کے دکھا دو جدا جدا
یہ بانکپن کی چال یہ ناز و ادا کی ہے
بیخود دہلوی
…………..

تیر قاتل کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ہم تو دشمن کو بھی آرام دیے جاتے ہیں
بیخود دہلوی
………..

آپ کو رنج ہوا آپ کے دشمن روئے
میں پشیمان ہوا حال سنا کر اپنا
بیخود دہلوی
……………

ہم نے دکھا دکھا تری تصویر جا بہ جا
ہر اک کو اپنی جان کا دشمن بنا لیا
کپتان الیکزینڈر ہیڈرلی آزاد
……….

کیا ہے فاش پردہ کفر و دیں کا اس قدر میں نے
کہ دشمن ہے برہمن اور عدو شیخ حرم میرا
چکبست برج نرائن
……………..

الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں
داغؔ دہلوی
………

زمانہ دوستی پر ان حسینوں کی نہ اترائے
یہ عالم دوست اکثر دشمن عالم بھی ہوتے ہیں
داغؔ دہلوی
…………..

بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں
داغؔ دہلوی
……….

جس خط پہ یہ لگائی اسی کا ملا جواب
اک مہر میرے پاس ہے دشمن کے نام کی
داغؔ دہلوی
……………

کیا لطف دوستی کہ نہیں لطف دشمنی
دشمن کو بھی جو دیکھیے پورا کہاں ہے اب
داغؔ دہلوی
……….

مرگ دشمن کا زیادہ تم سے ہے مجھ کو ملال
دشمنی کا لطف شکوؤں کا مزا جاتا رہا
داغؔ دہلوی
…………

غضب ہے مدعی جو ہو وہی پھر مدعا ٹھہرے
جو اپنا دشمن دل ہو وہی دل کی دوا ٹھہرے
داغؔ دہلوی
……….

دشمنوں سے دوستی غیروں سے یاری چاہئے
خاک کے پتلے بنے تو خاکساری چاہئے
داغؔ دہلوی
……….

اپنے دشمن کو بھی خود بڑھ کے لگا لو سینے
بات بگڑی ہوئی اس طرح بنا لی جائے
دانشؔ علیگڑھی
……………..

وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے
بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے
دتا تریہ کیفی
……..

میں جب میدان خالی کر کے آیا
مرا دشمن اکیلا رہ گیا تھا
دلاور علی آزر
………….

اپنے دشمن کو بھی محبت دے
عشق کے دائرے کو وسعت دے
ڈاکٹر یاسین عاطر

…………