ہر رکاوٹ میں کوئی نہ کوئی بہتری چپھی ہوتی ہے
یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے
…………….
اللہ کو پا کر کبھی کسی نے كچھ نہیں کھویا
اور اللہ کو کھو کر کسی نے کبھی کچھ نہیں پایا
…………….
پریشانیاں بڑھ جائیں تو خدا کے سامنے رو لیا کریں
بے شک وہ ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے
…………….
نماز کو محبت سمجھ کے ادا کرو گے
تو اللہ پاک اگلی نماز کے لیے تمہیں خود کھڑا کر دے گا
…………….
نماز کے لیے دنیا کو چھوڑ دو
لیکن
دنیا کے لیے نماز کو نہیں چھوڑو
…………….
کلمہ پڑھنے سے ایمان تازہ رہتا ہے
لا الہ الا الله محمد رسول الله
…………….
لوگوں کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں
قران نے بتایا ہے
اور تمھارا رب بہترین چال چلنے والا ہے
…………….
آئیے ہم سب اپنے گناہوں کی معافی کے لئے اپنے رب کی طرف رجوع کریں
بےشک وہ بڑا مہربان ہے
…………….
اور پھر وقت آخر ثابت کر ہی دیتا ہے
کہ اللہ کے فیصلے ہماری خواہشوں سے بہتر ہیں
…………….
لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام
اس طرح سے بنا لو مر جاؤ
تو تمہارے لئے دعا کریں
اگر زندہ ہو تو ملنے کی جستجو کریں
…………….
جو مصیبت ہمیں اللہ سے دور کرے وہ سزا ہوتی ہے
اور جو مصیبت ہمیں اللہ سے قریب کریں وہ آزمائش ہوتی ہے
…………….
جو مل رہا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے
تم نہیں جانتے لیکن دینے والا خوب جانتا ہے
…………….
دل میں صرف رب کے لیے محبت رکھو
دنیا کی محبت غم کے سوا کچھ نہیں دیتی
…………….
رب سے مانگ کر دیکھو تو سہی
ایک وہی تو ہے جو حقیقت میں آپ کا منتظر ہے
…………….
دوسروں کو معاف کرنا سیکھو
اللہ تعالی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
…………….
اللہ پر ہمیشہ بھروسہ رکھو کیونکہ
اللہ وہ نہیں دیتا جو تمہیں اچھا لگتا ہے
بلکہ وہ دیتا ہے جو آپ کے لیے اچھا ہوتا ہے
…………….
ایک مٹی کے بنے انسان کی محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے
کہ دل کا قرار اور آنکھوں کی نیند چھین لیتی ہے
مالک الملک کی محبت کا عالم کیا ہوگا؟
…………….
جو اللہ کی یاد میں وقت گزارتے ہیں
وہ کبھی بھی پریشان نہیں ہوتے
…………….
ہم اس دور میں جی رہـــے ہیں جہاں عمل کرنے سے زیادہ
فارورڈ کرنے میں ثواب سمجھا جاتا ہے
…………….
مجھے اپنے رب پر پورا یقین ہے
اور اسی پر یقین ہے
وہ میری شہ رگ سے زیادہ میرے قریب ہے
وہ ضرور میری سنے گا
…………….
اللہ کو راضی کرو
وہ تجھے راضی کر دے گا
…………….
دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہےسن لو اے لوگوں
…………….
اللہ اپنے بندے کو بکھرنے سے پہلے ہی تھام لیتا ہے
…………….
کیا بخشے جائیں گے ہم
ہر نماز کے بعد نا محرم کو مانگنے والے
…………….
دنیا میں دو ہی اپنے ہوتے ہیں
ایک اللہ اور والدین
…………….
کسی کے ساتھ برا کر کے اپنے لیے اچھائی کی امید مت رکھو
…………….
جو اللہ سے نہیں مانگتے وہ پھر سب سے مانگتے ہیں
…………….
چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو حقیر نہ سمجھو
ممکن ہے وہی اللہ کی رضا کا سبب ہو
…………….
انسان کے ہاتھ میں صرف کوشش لکھی ہے
کامیابی تو اللہ عطا فرماتا ہے
…………….
جب کوئی امید نہ ہو تب زیادہ یقین سے مانگو
کیوں کہ معجزے خدا کی شان ہیں
…………….
کوئی سجدہ ایسا مل جاۓ
میں سر جھکاؤں رب مل جائے-
……….……
رب کو اوپر نہ ڈھونڈ ذرا سی گردن نیچے کر رب تجھے اپنے دل میں ملے گا
…………….
نیت نہیں صاف تو برکت کہاں سے آئے گی
جمعے جمعے کی نماز سے جنت تھوڑی مل جائے گی
…………….
صرف رب کی ذات ایسی ہے جو معافی مانگنے پے
یہ نہیں پوچھتا کہ غلطی کیوں کی تھی
…………….
جب آپ غمگین ہوجائیں اور پریشانیاں بڑھ جائیں اور کوئی راستہ نہ ملے تو اللہ کے سامنے خوب رو لیا کرو
…………….
اپنى پریشانیوں کو نمازوں میں بدل دو
الله مسائل کو نعمت میں بدل دے گا
…………….
زمانہ جب بھی مشکل میں ڈال دیتا ہے
میرا اللّٰہ ہزار رستے نکال دیتا ہے
………….…
جب یقین اللہ کی ذات پر ہو تب ہر چیز کی پروا کرنا چھوڑ دیا
کرو کیوں کہ وہ ذات کسی کو مایوس نہیں کرتی
……….……
اور پھر وہ اللہ حقیقت دیکھا دیتا ہے
ہر رشتے کی
ہر محبت کی
اور فرماتا ہے بتا کون ہے تیرا میرے سوا
……….……
صبر سے رحمت کا انتظار کر جو چیز تیرے لئے ہے
تیرے لئے ہی ہے اور دیر حکمت پر مبنی ہوتی ہے
……….……
……….……
اللہ کو دو قطرے بہت پسند ہیں
ایک شہید کے خون کا
دوسرا وہ آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے بہے
بچوں کو دینی تعلیم لازمی دیں
کیونکہ اگر ایک ماں دیندار ہو گی
تو دین نسلوں تک پہنچ جائے گا
……….……
الجھنوں میں جکڑے ہیں
پریشانیوں میں پھنسے ہیں
کسی کے سامنے رونے سے بہتر ہے
بندہ سجدے میں رب کے آگے روئے
……….……
صحابہ کرام نیکیاں کرکے بھی روتے تھے
اور آج کا انسان پہاڑوں جتنا گناہ کر کے بھی شرمندہ نہیں ہوتا
………….…
ہم جتنا مردے کو کندھا دینے کو افضل سمجھتے ہیں
اتنا کسی زندہ کو سہارا دینا سمجھ لیں
تو ہزاروں انسانوں کے حالات ٹھیک ہوجائیں
……….……
اپنی حد میں رہنا سیکھو
حد میں رہنا اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے
کیونکہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو طوفان بن جاتا ہے
اور انسان حد سے بڑھ جائے تو شیطان بن جاتا ہے
……….……
اللہ تعالیٰ ہمیں روز اک صبح عطا کرتا ہے
جو دودھ کی طرح صاف اور شفاف ہے
مگر افسوس ہم روزانہ اس کو اپنے جھوٹ وفریب سے کالا کر دیتے ہیں
……….……
خدا نے چیزیں استعمال اور لوگ محبت کے لیے بنائے ہیں
لیکن اشرف المخلوقات
چیزوں سے محبت اور لوگوں کو استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں
……….……
کبھی سجدوں میں جھکنا
کبھی آنسووں کا تڑپنا
کبھی ہاتھوں کا اٹھنا
خواہشیں ادھوری ہوں تو رب کتنا یاد آتا ہے
……….……
دنیا میں سب سے زیادہ لکھی جانے والی کتاب ہمارا نامہ اعمال ہے
اور روز قیامت سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بھی ہمارا نامہ اعمال ہوگی
اپنی اس کتاب کے مصنف آپ خود ہی ہیں
لہذا اس پر محنت کیجئیے اس کو سنوار دیجیئے
……….……
ایک مسجد کی دیوار پہ لکھا خوبصورت جملہ
اگر تم گناہوں سے تھک گئے ہو تو اندر آجاؤ
خدا کی رحمت تمہارے انتظار میں ابھی تک نہیں تھکی
……………………………………….
چھلکوں کے ہیں انبار مگر مغز ندارد
دنیا میں مسلماں تو ہیں اسلام نہیں ہے
عبد العزیز خالد
……………………
ترک دے اسلام کو اور کفر سارا دور کر
چھوڑ دے حرص و ہوا فرزند اور زن بھول جا
علیم اللہ
……………………
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
……………………
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
……………………
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
امجد اسلام امجد
……………………
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
امجد اسلام امجد
……………………
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
……………………
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
امجد اسلام امجد
……………………
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
امجد اسلام امجد
……………………
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
……………………
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجدؔ
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا
امجد اسلام امجد
ہر بات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
امجد اسلام امجد
……………………
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور
امجد اسلام امجد
……………………
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی
امجد اسلام امجد
……………………
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
امجد اسلام امجد
……………………
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
امجد اسلام امجد
……………………
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن
امجد اسلام امجد
……………………
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
امجد اسلام امجد
……………………
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل
شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن
امجد اسلام امجد
……………………
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے
چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا
امجد اسلام امجد
……………………
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
……………………
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
امجد اسلام امجد
……………………
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی
امجد اسلام امجد
……………………
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے
امجد اسلام امجد
……………………
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہجر کی رات کا کنارا نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن
امجد اسلام امجد
……………………
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے
امجد اسلام امجد
……………………
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
امجد اسلام امجد
……………………
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں
سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا
امجد اسلام امجد
……………………
ایک نظر دیکھا تھا اس نے آگے یاد نہیں
کھل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں
امجد اسلام امجد
……………………
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا
امجد اسلام امجد
……………………
اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں
جس قدر خواہش سفر میں ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
کچھ ایسی بے یقینی تھی فضا میں
جو اپنے تھے وہ بیگانے لگے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
امجد اسلام امجد
……………………
آنکھوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی
سینوں میں گھٹ کے رہ گئی آواز کس طرح
امجد اسلام امجد
……………………
بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی
امجد اسلام امجد
……………………
شہر سخن میں ایسا کچھ کر عزت بن جائے
سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے عزت رہتی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول
ایک لمحہ تھا جو امجدؔ آج تک گزرا نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
گاہے گاہے ہی سہی امجدؔ مگر یہ واقعہ
یوں بھی لگتا ہے کہ دنیا کا خدا کوئی نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
تیر آیا تھا جدھر یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
امجد اسلام امجد
……………………
وہ سامنے ہے پھر بھی دکھائی نہ دے سکے
میرے اور اس کے بیچ یہ دیوار کون ہے
امجد اسلام امجد
……………………
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
امجد اسلام امجد
……………………
کن فکاں کے بھید سے مولیٰ مجھے آگاہ کر
کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
کوئی چلے تو زمیں ساتھ ساتھ چلتی ہے
یہ راز ہم پہ عیاں گرد رہ گزر سے ہوا
امجد اسلام امجد
……………………
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا
حسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
امجد اسلام امجد
……………………
اس کی گلیوں میں رہے گرد سفر کی صورت
سنگ منزل نہ بنے راہ کا پتھر نہ ہوئے
امجد اسلام امجد
……………………
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں
امجد اسلام امجد
……………………
لہریں اٹھ اٹھ کے مگر اس کا بدن چومتی تھیں
وہ جو پانی میں گیا خوب ہی دریا چمکا
امجد اسلام امجد
……………………
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا
امجد اسلام امجد
……………………
پسپا ہوئی سپاہ تو پرچم بھی ہم ہی تھے
حیرت کی بات یہ ہے کہ برہم بھی ہم ہی تھے
امجد اسلام امجد
……………………
آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے
اور اس دریا میں پانی بھی نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
ہجر کی انجمن سے ہر ساعت
اشک بے تاب کی طرح گزری
امجد اسلام امجد
……………………
نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے
یہ داستان ہے ہجر و وصال سے باہر
امجد اسلام امجد
……………………
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
درد کا رستہ ہے یا ہے ساعت روز حساب
سیکڑوں لوگوں کو روکا ایک بھی ٹھہرا نہیں
امجد اسلام امجد
……………………
تم سے بچھڑ کر پہروں سوچتا رہتا ہوں
اب میں کیوں اور کس کی خاطر زندہ ہوں
امجد اسلام امجد
……………………
لرزش نگہ میں لہجے میں لکنت عجیب تھی
اس اولیں وصال کی وحشت عجیب تھی
امجد اسلام امجد
……………………
خدا حافظ ہے اب اے زاہدو اسلام عاشق کا
بتان دہر غالب آ گئے ہیں کعبہ و دل پر
اسد علی خان قلق
……………………
عمر تو اپنی ہوئی سب بت پرستی میں بسر
نام کو دنیا میں ہیں اب صاحب اسلام ہم
اسد علی خان قلق
……………………
کفر و اسلام کے جھگڑوں سے چھڑایا صد شکر
قید مذہب سے جنوں نے مجھے آزاد کیا
اسد علی خان قلق
……………………
اے شیخ اگر کفر سے اسلام جدا ہے
پس چاہئے تسبیح میں زنار نہ ہوتا
اشرف علی فغاں
……………………
ہمیں اسلام اسے اتنا تعلق ہے ابھی باقی
بتوں سے جب بگڑتی ہے خدا کو یاد کرتے ہیں
بیخود دہلوی
……………………
توقیر اندھیروں کی بڑھا دی گئی شاید
اک شمع جو روشن تھی بجھا دی گئی شاید
احترام اسلام
……………………
یاد تھا سقراطؔ کا قصہ سبھی کو احترامؔ
سوچئے ایسے میں بڑھ کر سچ کو سچ کہتا تو کون
احترام اسلام
……………………
لڑکھڑا کر گر پڑی اونچی عمارت دفعتاً
دفعتاً تعمیر کی کرسی پہ کھنڈر جم گیا
احترام اسلام
……………………
شعر کے روپ میں دیتے رہنا
احترامؔ اپنی خبر آگے بھی
احترام اسلام
……………………
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا
خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی
احترام اسلام
……………………
اسی سے مجھ کو ملا اشتیاق منزل کا
مرے سفر کو فضائے سفر اسی سے ملی
احترام اسلام
……………………
اس بار بھی شعلوں نے مچا ڈالی تباہی
اس بار بھی شعلوں کو ہوا دی گئی شاید
احترام اسلام
……………………
اہل دنیا سے مجھے تو کوئی اندیشہ نہ تھا
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پر جم گیا
احترام اسلام
……………………
ننگ دھڑنگ ملنگ ترنگ میں آئے گا جو وہی کام کریں گے
کفر کریں گے جو آیا جی جی چاہا تو اسلام کریں گے
فرحت احساس
……………………
جو شیخ ہے چاہے ہے سر رشتۂ اسلام
قائم رہے تسبیح کا اک تار نہ ٹوٹے
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی
……………………
کفر و اسلام کی کچھ قید نہیں اے آتشؔ
شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انساں ہووے
حیدر علی آتش
……………………
شیخ و پنڈت دھرم اور اسلام کی باتیں کریں
کچھ خدا کے قہر کچھ انعام کی باتیں کریں
ہری چند اختر
……………………
میں حسرتؔ مجتہد ہوں بت پرستی کی طریقت کا
نہ پوچھو مجھ کو کیسا کفر ہے اسلام کیا ہوگا
حسرتؔ عظیم آبادی
……………………
روز ازل سے ساتھ ہے اسلام و کفر کا
کب دانہ ہائے سبحہ سے زنار رہ گیا
امداد علی بحر
……………………
زلف دو تا دو راہۂ اسلام و کفر ہے
زاہد ادھر خراب ادھر برہمن خراب
امداد علی بحر
……………………
کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر
وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا
اسماعیل میرٹھی
……………………
کفر پر مت طعن کر اے شیخ میرے رو بہ رو
مجھ کو ہے معلوم کیفیت ترے اسلام کی
جوشش عظیم آبادی
……………………
زلف اور رخ کی پرستش شرط ہے
کفر ہو اے شیخ یا اسلام ہو
جوشش عظیم آبادی
……………………
اسلام سے برگشتہ نہ ہوتے بخدا ہم
گر عشق بتاں طبع کے مرغوب نہ ہوتا
جرأت قلندر بخش
……………………
وارستہ کر دیا جسے الفت نے بس وہ شخص
کب دام کفر و رشتۂ اسلام میں پھنسا
جرأت قلندر بخش
……………………
سلسلہ رکھتا ہے میرا کفر کچھ اسلام سے
ہیں کئی تسبیح کے دانے مری زنار میں
خواجہ محمد وزیر
……………………
سر آنکھوں سے کریں سجدہ جدھر ابرو ہلائے وہ
جدا کچھ کفر اور اسلام سے مذہب ہمارا ہے
خواجہ محمد وزیر
……………………
عارض پہ رہی زلف سیہ فام ہمیشہ
پامال رہا کفر کا اسلام ہمیشہ
کشن کمار وقار
……………………
لگاتا پھر رہا ہوں عاشقوں پر کفر کے فتوے
ظفرؔ واعظ ہوں میں اور خدمت اسلام کرتا ہوں
ظفر اقبال
……………………
بہ معنی کفر سے اسلام کب خالی ہے اے زاہد
نکل سبحے سے رشتہ صورت زنار ہو پیدا
ولی اللہ محب
……………………
اسلام میں یہ کیسا انکار کفر سے ہے
تسبیح میں پروئے زنار ہے تعجب
ولی اللہ محب
……………………
مجھ کو اور یار کو دونوں سے سروکار نہیں
کفر کافر کو مسلماں کو ہے اسلام پسند
……………………
ہجر میں اس بت کافر کے تڑپتے ہیں پڑے
اہل زنار کہیں صاحب اسلام کہیں
تاباں عبد الحی
……………………
ہر سنگ میں کعبہ کے نہاں عشوۂ بت ہے
کیا بانیٔ اسلام بھی غارت گر دیں تھا
قلق میرٹھی
……………………
کفر اور اسلام میں دیکھا تو نازک فرق تھا
دیر میں جو پاک تھا کعبے میں وہ ناپاک تھا
قلق میرٹھی
……………………
مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو
ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ
پروین ام مشتاق
……………………
کبھی تو لگتا ہے یہ عذر لنگ ہے ورنہ
مجھے تو کفر نے اسلام پر لگایا ہوا ہے
ندیم احمد
……………………
تھا مقدم عشق بت اسلام پر طفلی میں بھی
یا صنم کہہ کر پڑھا مکتب میں بسم اللہ کو
رند لکھنوی
……………………
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
……………………
طالب دوست الگ رہتے ہیں سب سے ان کو
پاس اصنام نہیں خواہش اسلام نہیں
میر مہدی مجروح
……………………
جہاں وہ ہے نہیں واں کفر و اسلام
عبث جھگڑا ہے شیخ و برہمن میں
میر محمدی بیدار
……………………
گر وہ بت گلنار قبا جلوہ نما ہو
دیں خرقۂ اسلام کو اہل حرم آتش
میر محمدی بیدار
……………………
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
میر تقی میر
……………………
دیکھا ہے مجھے اپنی خوشامد میں جو مصروف
اس بت کو یہ دھوکا ہے کہ اسلام یہی ہے
مرزا ہادی رسوا
……………………
چھوڑ دیں دیر و حرم کفر اور اسلام کے لوگ
کعبۂ دل میں جو دیکھیں مرے بت خانۂ عشق
مسکین شاہ
……………………
اسلام کا ثبوت ہے اے شیخ کفر سے
تسبیح ٹوٹ جائے جو زنار ٹوٹ جائے
منور خان غافل
……………………
شیخ لے ہے راہ کعبے کی برہمن دیر کی
عشق کا رستہ جدا ہے کفر اور اسلام سے
منیرؔ شکوہ آبادی
……………………
بھٹکے پھرے دو عملۂ دیر و حرم میں ہم
اس سمت کفر اس طرف اسلام لے گیا
منیرؔ شکوہ آبادی
……………………
عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے
یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا
مصحفی غلام ہمدانی
……………………
ہرگز رہا نہ کافر و مومن سے اس کو کام
دل نے کیا قبول جب اسلام حسن کا
مصحفی غلام ہمدانی
……………………
شیخ مغرور ہے اسلام پہ کیا ساتھ اپنے
تیری تسبیح تو زنار لیے پھرتی ہے
مصحفی غلام ہمدانی
……………………
ہم مصحفیؔ بہ کفر تو مشہور ہو چکے
آنا قبول اب نہیں اسلام میں ہمیں
مصحفی غلام ہمدانی
……………………
خوب رویوں کی محبت سے کریں کیوں توبہ
دین اپنا ہے یہی اور یہی اسلام اپنا
مصحفی غلام ہمدانی
……………………
اتنے محکوم بتاں ہیں جو یہ کافر چاہیں
پہنیں زنار ابھی چھوڑ دیں اسلام کو ہم
مصحفی غلام ہمدانی
……………………