ہم تیرے لگتے تو کچھ بھی نہیں مگر
بن تیرے نہ جانے کیوں اداس رہتے ہیں
…………….
مناسب سمجھو تو صرف اتنا بتا دو
دل بے چین ہے کہیں تم اداس تو نہیں
…………….
جگر ہوجائے گا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
بے فیض لوگوں سے نبھا کے کچھ نہیں ملتا
…………….
ہاں توڑ دیا وہ شیشہ آج میں نے
ہنس رہا تھا مجھ پر کچھ زیادہ
…………….
مجھ سے کہتی ہے تیرے ساتھ رہونگی
بہت پیار کرتی ہے مجھ سے اداسی میری
…………….
دل کو تیرے دیدار کی آس رہتی ہے
ان نظروں کو تیری صورت کی پیاس رہتی ہے
میرے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں دوست
مگر تیرے بغیر زندگی اداس رہتی ہے
…………….
اے حاصل خلوص بتا کیا جواب دوں
دنیا یہ پوچھتی ہے کہ میں کیوں اداس ہوں
…………….
اداس لوگ یونہی نہیں مسکراتے
غموں سے چھین کر لاتے ہیں ہنسی اپنی
…………….
اب تو ہمیں ہمیشہ اداس ہی رہنا ہے
اس دل سے نکل گیا کوئی
…………….
اس کی دوری نے چھین لی ہنسی مجھ سے
اور لوگ کہتے ہیں بہت سدھر گیا ہوں میں
…………….
اداس دل ہے مگر ہر کسی سے ہنس کے ملتے ہیں
یہی ایک فن سیکھا ہے بہت کچھ کھونے کے بعد
…………….
بتاؤں تمہیں اداس لوگوں کی نشانی وہ لوگ مسکراتے بہت ہیں
…………….
تیری سوچ میں ہی گزر گٸ
وہ جو عمر تھی بڑے کام کی
…………….
خاموشیاں بہت کچھ کہتی ہیں کان لگا کر نہیں دل لگا کر سنو
…………….
جب مان ٹوٹ جائے تو انسان خاموش ہو جاتا ہے
پھر نہ تو کوئی گلہ کرنے کو دل کرتا ہے
نہ کوئی شکوہ کرنے کو دل کرتا ہے
…………….
خود سے ناراض زمانے سے خفا رہتے ہیں
جانے کیا سوچ کے ہم سب سے جدا رہتے ہیں
…………….
حالات نے چہرے کی چمک چھین لی ورنہ
دو چار برس میں یوں بڑھاپے نہیں آتے
…………….
خاموشیوں کو سمجھنا سیکھیں جناب
ٹوٹے ہوئے لوگ لفظوں کا استعمال نہیں کرتے
…………….
میں وہ لکھتے ہوئے بہت رویا
تم جسے پڑھ کے مسکرائے ہو
…………….
ہماری مثال ان پھولوں جیسی ہے
جو کھلتے ہی نہیی مرجھانے کے خوف سے
…………….