بغیر مقصد کے زندگی گزارنا ایسی ہے
جیسے کہ بنجر زمین یا بغیر پروں کے پرندہ
…………………….
اچھے کے ساتھ اچھے رہو لیکن برے کے لئے برے مت بنو
کیونکہ تم پانی سے خون صاف کر سکتے ہو پر خون سے پانی نہیں
…………………….
اپنی اولاد کو مالدار بنانا کمال نہیں ہے
بلکہ اپنی اولاد کو دیندار بنانا کمال ہے
…………………….
دلوں پے لفظ نہیں
لہجے اثر کرتے ہیں
…………………….
رشتے موتیوں کی طرح ہوتے ہیں
کوئی گر بھی جاے تو جھک کے اٹھا لینا چاہیے
…………………….
آمادگی کو وصل سے مشروط مت سمجھ
یہ دیکھ اس سوال پہ سنجیدہ کون ہے
عزم بہزاد
…………………….
آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے
فراق گورکھپوری
…………………….
میری سنجیدہ طبیعت پہ بھی شک ہے سب کو
بعض لوگوں نے تو بیمار سمجھ رکھا ہے
حسیب سوز
…………………….
شوخی کسی میں ہے نہ شرارت ہے اب عبیدؔ
بچے ہمارے دور کے سنجیدہ ہو گئے
عبید الرحمان
…………………….
اپنی سنجیدہ طبیعت پہ تو اکثر ناظمؔ
فکر کے شوخ اجالے بھی گراں ہوتے ہیں
ناظم سلطانپوری
…………………….
اب اپنا چہرہ بیگانہ لگتا ہے
ہم کو تھی سنجیدہ رہنے کی عادت
منیش شکلا
…………………….
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا
…………………….
سوکھی بیلیں،داغی کلیاں،زخمی تارے،روگی چاند
ایک ہی حال ہے سب کا یارو کون یہاں بیمار نہیں۔
…………………….
زندگی اتنی تلخ اور سنجیدہ نہیں ہوتی جتنا دماغ سوچ سوچ کر اِسے بنا دیتا ہے۔
…………………….
خوش مزاجی بھی مشہور تھی ہماری سادگی بھی کمال تھی
ہم شرارتی بھی انتہا کے تھے اب سنجیدہ بھی بے مثال ہیں
♥️♥️♥️
…………………….
عورت سنجیدہ اور دو ٹوک بات کرنے والے مرد کو پسند نہیں کرتی
اسے سہانے خواب
اور خوش فہمی میں زندہ رہنے کی عادت ہے
مستانی
…………………….
اذیت ہے یہ سنجیدہ مزاجی
ہمیں خود کو ہنسانا پڑ رہا ہے
ہم اس کے پاس ہیں سارے کے سارے
اسے یہ بھی بتانا پڑ رہا ہے
…………………….
…………………….
میرے اندر اک تاریک جنگل ہے
کچھ بکھرے بادل ہیں
اک گہرا سمندر ہے
کچھ انمول موتی ہیں
اک دھوپ سا چمکدار دن ہے
اک کالی سیاہ رات ہے
کچھ رنگ برنگے منظر ہیں
مجھ میں۔۔۔
اک سہما ہوا انسان بھی ہے
میں سلجھی ہوں ایسے جیسے کسی بچے کا معصوم سوال
اور الجھی ہوں ایسے جیسے کوئی پیچیدہ جال
میں شفاف ہوں ایسے جیسے کوئی آبشار
اور تاریک ہوں ایسے جیسے گہری غار
میں اچھی بھی ہوں،میں بری بھی
میں شوخ بھی ہوں،میں سادہ بھی
میں شریر بھی ہوں،میں سنجیدہ بھی
میں دوست بھی ہوں،میں دشمن بھی
میں نرم بھی ہوں، میں سنگدل بھی
میں۔۔۔
میں صرف ایک “عام سی لڑکی” ہوں۔۔۔۔
…………………….
عمر کہتی ہے اب سنجیدہ ہوا جائے
دل کہتا ہے تھوڑی نادانیاں اور سہی
…………………….
غزل
مری عمرِ رفتہ نے کیا کیا نہ دیکھا
کہاں زندگی کا تماشا نہ دیکھا
جو تھا پاس میرے لٹا کر ہی مانا
محبت میں اپنا خسارہ نہ دیکھا
تجلی رہی نہ رہا طور باقی
کسی نے وہ پھر سے نظارہ نہ دیکھا
یہاں ہم نے فرعون دیکھے ہزاروں
مگر کوئی موسیٰ کے جیسا نہ دیکھا
یہ دولت یہ شہرت کی چاہت نہیں ہے
ابھی تم نے مجھ کو نہ پرکھا نہ دیکھا
یہ آداب محفل یہ شیریں زبانیں
کہیں ہم نے ایسا تو جَلْسَہ نہ دیکھا
وہی تھا وہی تھا یہ کہتے ہیں سارے
کسی نے مگر اسکا چہرہ نہ دیکھا
صدائیں لگائیں بہت ہم نے لوگو
مگر بھیڑ میں کوئی اپنا نہ دیکھا
چلا بھی گیا میرے آنے سے پہلے
ذرا میرے آ نے کا رستہ نہ دیکھا
قلم نے حسیں لکھ دیا تجھ کو سب سے
حسیں جب کوئی تجھ سا چہرہ نہ دیکھا
وہ فہم و فراست و سنجیدہ لہجہ
ابھی تم نے “عاتیف” کا جلوہ نہ دیکھا
…………………….
جاتے جاتے یہ تکلف بھی نبھاتے جائیے
عشق کے ظلم و ستم سارے بھلاتے جائیے
مفلسوں کو اک زباں اس کے لیے دے دی گئی
صاحبوں کی ہاں میں بس ہاں ہاں ملاتے جائیے
راہ بربادی پہ جانا ہے تو جائیں شوق سے
ہاں مگر اپنے یہ نقش پا مٹاتے جائیے
سرحدیں ہو ختم ساری ختم ہو سب بھید بھاؤ
خوں سے میرے ایسا اک نقشہ بناتے جائیے
گفتگو کرنی ہے سنجیدہ شفقؔ سے آپ کو
شعر کہئے اور ٹھہاکے بھی لگاتے جائیے
ادتیہ شری واستو شفق
…………………….
یورش غم سے دل و جاں کو بچاؤں کیسے
سو رہی ہے مری تقدیر جگاؤں کیسے
عقل کچھ کہتی ہے اور دل کے تقاضے ہیں کچھ اور
آئینہ مجھ سے جو کہتا ہے بتاؤں کیسے
اشک تو پی لیے ناموس وفا کی خاطر
غم جو چہرے سے جھلکتا ہے چھپاؤں کیسے
دل ہی جب مجھ سے بغاوت پہ کمر بستہ ہو
اس کے ہاتھوں میں ہو آنچل تو چھڑاؤں کیسے
ہے ادھر اس کی محبت تو ادھر مجبوری
دل کے آنگن کی یہ دیوار گراؤں کیسے
بزم میں چھیڑتی رہتی ہیں کسی کی نظریں
دل مچل جائے جو ایسے میں مناؤں کیسے
قہقہوں نے ہی بھرم رکھا ہے اب تک میرا
ہو کے سنجیدہ وفاؔ اشک چھپاؤں کیسے
امۃ الحئی وفا
…………………….
عشق پاگل پن میں سنجیدہ نہ ہو جائے کہیں
مجھ کو ڈر ہے تو میرے جیسا نہ ہو جائے کہیں
فصل گل میں ہے شجر کو فکر نے تنہا کیا
فصل گل کے باد وہ تنہا نہ ہو جائے کہیں
تتلیوں سے ہم ریا کاری گلوں کی کہہ تو دیں
ڈر یہی ہے شوخ پھر سادہ نہ ہو جائے کہیں
ہم مداوا اپنے غم کا اس لئے کرتے نہیں
خود مسیحا ہونے کا دعویٰ نہ ہو جائے کہیں
عاطف خان
…………………….
کھلتا نہیں کہ ہم میں خزاں دیدہ کون ہے
آسودگی کے باب میں رنجیدہ کون ہے
آمادگی کو وصل سے مشروط مت سمجھ
یہ دیکھ اس سوال پہ سنجیدہ کون ہے
دیکھوں جو آئینہ تو غنودہ دکھائی دوں
میں خواب میں نہیں تو یہ خوابیدہ کون ہے
انبوہ اہل زخم تو کب کا گزر چکا
اب رہ گزر پہ خاک میں غلطیدہ کون ہے
اے کرب نا رسائی کبھی یہ تو غور کر
میرے سوا یہاں ترا گرویدہ کون ہے
ہر شخص دوسرے کی ملامت کا ہے شکار
آخر یہاں کسی کا پسندیدہ کون ہے
تو عزم ترک عشق پہ قائم تو ہے مگر
تجھ میں یہ چند روز سے لرزیدہ کون ہے
عزم بہزاد
…………………….