Shikwa Poetry

زباں پہ شکوۂ بے مہریٔ خدا کیوں ہے؟
دعا تو مانگیے آتشؔ کبھی دعا کی طرح
آتش بہاولپوری
………

تمہارے سنگ تغافل کا کیوں کریں شکوہ
اس آئنے کا مقدر ہی ٹوٹنا ہوگا
عبد الحفیظ نعیمی
………….

کہاں شکوہ زمانے کا پس دیوار کرتے ہیں
ہمیں کرنا ہے جو بھی ہم سر بازار کرتے ہیں
عبدالمجید خاں مجید
………….

یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں
مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے
اکبر علی خان عرشی زادہ
………

گزارنے تھے یہی چار دن گزار دئے
نہ کوئی رنج نہ شکوہ نہ اب ملال کوئی
عنبر کھربندہ
………

ہر در پہ اک بانگ لگاویں بھلا کرو بس بھلا کرو
ایک ہی شکوہ ایک ہی نالہ صبح کیا اور شام کیا
امان اللہ خالد
……..

آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا
آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے
عامر عثمانی
………

شکوہ کیا زمانے کا تو اس نے یہ کہا
جس حال میں ہو زندہ رہو اور خوش رہو
انور سدید
……..

عرشؔ پہلے یہ شکایت تھی خفا ہوتا ہے وہ
اب یہ شکوہ ہے کہ وہ ظالم خفا ہوتا نہیں
عرش ملسیانی
…………

عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام
توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں
اثر رامپوری
……….

تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
عزیز نبیل
……………

دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہیٔ داماں ہو جائے
بیدم شاہ وارثی
………….

شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا
بیخود بدایونی
………….

بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
داغؔ دہلوی
……….

آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً
کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا
فنا نظامی کانپوری
……..

تم اسے شکوہ سمجھ کر کس لیے شرما گئے
مدتوں کے بعد دیکھا تھا تو آنسو آ گئے
فراق گورکھپوری
………..

احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
حفیظ جالندھری
………

بدگماں آپ ہیں کیوں آپ سے شکوہ ہے کسے
جو شکایت ہے ہمیں گردش ایام سے ہے
حسرتؔ موہانی
……….

مجبور کا شکوہ کیا مجبور کی آہیں کیا
یہ آپ کی دنیا ہے بس آپ کی چلتی ہے
امتیاز احمد قمر
…………….

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
اقبال عظیم
………..

شب غم کا حبیبؔ شکوہ کیوں
دیکھ وہ پو پھٹی وہ رات آئی
جے کرشن چودھری حبیب
……….

تجھ کو شکوہ ہے کہ عشاق نے بد نام کیا
سچ تو یہ ہے کہ ترا حسن ہے دشمن تیرا
جلیل مانک پوری
………….

دل کی تکلیف کم نہیں کرتے
اب کوئی شکوہ ہم نہیں کرتے
جون ایلیا
………….

ہمیں شکوہ نہیں اک دوسرے سے
منانا چاہئے اس پر خوشی کیا
جون ایلیا
…………

کوئی شکوہ نہ غم نہ کوئی یاد
بیٹھے بیٹھے بس آنکھ بھر آئی
جاوید اختر
………..

تنگ پیمائی کا شکوہ ساقئ ازلی سے کیا
ہم نے سمجھا ہی نہیں دستور مے خانہ ابھی
جتیندر موہن سنہا رہبر
………

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا
…………..

مرے آنسوؤں پہ نظر نہ کر مرا شکوہ سن کے خفا نہ ہو
اسے زندگی کا بھی حق نہیں جسے درد عشق ملا نہ ہو
کیف اکرامی
…………

شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے غیروں سے نہیں
آپ کہہ دیں تو کبھی آپ سے شکوہ نہ کریں
خلش کلکتوی
…………

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو
خواجہ میر درد
………..

شکوہ نہیں دنیا کے صنم ہائے گراں کا
افسوس کہ کچھ پھول تمہارے بھی ملے ہیں
ذکی کاکوروی
…………

ابر آوارہ سے مجھ کو ہے وفا کی امید
برق بے تاب سے شکوہ ہے کہ پائندہ نہیں
ضیا جالندھری
………..

بے جا ہے تری جفا کا شکوہ
مارا مجھ کو مری وفا نے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
………..

جو ہم یہ طفلوں کے سنگ جفا کے مارے ہیں
بتوں کا شکوہ نہیں ہم خدا کے مارے ہیں
ولی عزلت
…………

اسے ضد کہ وامقؔ شکوہ گر کسی راز سے نہ ہو با خبر
مجھے ناز ہے کہ یہ دیدہ ور مری عمر بھر کی تلاش ہے
وامق جونپوری
……..

وصل کو موقوف کرنا پڑ گیا ہے چند روز
اب مجھے ملنے نہ آنا اب کوئی شکوہ نہیں
…………..

کاش میں پردے کا شکوہ ہی نہ کرتا ان سے
بے حجابی نے کیا اور بھی بیتاب مجھے
………….

کیا تھا دن کا وعدہ رات کو آیا تو کیا شکوہ
اسے بھولا نہیں کہتے جو بھولا گھر میں شام آیا
…………

کوئی شکوہ نہ شکایت نہ وضاحت کوئی
میز سے بس مری تصویر ہٹا دی اس نے
طارق قمر
……….

گل کیا جس نے وہ تھا اور مگر
شمع نے شکوہ ہواؤں سے کیا
تلوک چند کوثر
………….

شکوہ نہ بخت سے ہے نے آسماں سے مجھ کو
پہنچی جو کچھ اذیت اپنے گماں سے مجھ کو
قائم چاندپوری
…………

فلک سے مجھ کو شکوہ ہے زمیں سے مجھ کو شکوہ ہے
یقیں مانو تو خود اپنے یقیں سے مجھ کو شکوہ ہے
عبید الرحمان اعظمی
……….

زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
نریش کمار شاد
…………

کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا
نصیر ترابی
…………

اے دل شکوہ سنج کیا گزری
کس لئے ہونٹ رہ گئے سل کے
ناطق گلاوٹھی
………….

مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
ناطق لکھنوی
…………….

دوسروں سے کب تلک ہم پیاس کا شکوہ کریں
لاؤ تیشہ ایک دریا دوسرا پیدا کریں
نذیر بنارسی
……………

پہلے یہ شکر کہ ہم حد ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا
رئیس امروہوی
………

ساتھ بھی چھوٹا نہیں کوئی گلہ شکوہ نہیں
میں نکل کر آ گیا اس کی گلی سے اس طرح
راگھویندر دیویدی
………

اپنی وحشت سے ہے شکوہ دوسرے سے کیا گلہ
ہم سے جب بیٹھا نہ جائے کوئے جاناں کیا کرے
رشید لکھنوی
………

کتنا نادم ہوں کسی شخص سے شکوہ کر کے
مجھ سے دیکھا نہ گیا اس کا پشیماں ہونا
راسخ عرفانی
……….

محرومیوں کا اپنی نہ شکوہ ہو کیوں ہمیں
کچھ لوگ پی کے ہی نہیں چھلکا کے آئے ہیں
رضا امروہوی
………

پلٹ گئیں جو نگاہیں انہیں سے شکوہ تھا
سو آج بھی ہے مگر دیر ہو گئی شاید
محبوب خزاں
………..

اغیار کا شکوہ نہیں اس عہد ہوس میں
اک عمر کے یاروں نے بھی دل توڑ دیا ہے
مہیش چندر نقش
………..

ترے جور و جفا کا ہم کبھی شکوہ نہیں کرتے
محبت جس سے کرتے ہیں اسے رسوا نہیں کرتے
منصور خوشتر
…………

ہیں سو طریقے اور بھی اے بے قرار دل
اظہار شکوہ شکوے کے انداز میں نہ ہو
منظر لکھنوی
………

کس سے شکوہ کریں ویرانیٔ ہستی کا حیاتؔ
ہم نے خود اپنی تمناؤں کو جینے نہ دیا
مسعودہ حیات
………..

آہ کیا شکوہ کروں میں ہاتھ سے اس کے حنا
جب ہوئی میرے لہو کی رنگ تب دھونے لگا
میر حسن
………

کیا شکوہ کریں کنج قفس کا دل مضطر
ہم نے تو چمن میں بھی ٹک آرام نہ پایا
میر حسن
…….