جو زخم زبان سے لگتا ہے اس کو دنیا کا کوئی مرہم ٹھیک نہیں کر سکتا
……..
اتنا کھایا نہیں تھا نمک تیرا
جتنا چھڑکا ہے تم نے زخموں پر
……..
کانٹوں سے کیا گلہ وہ تو مجبور ہیں اپنی فطرت سے
درد تو تب ہوا جب پھول بھی زخم دینے لگے
……..
زخم دینے والے بھی اپنے
اور مرہم لگانے ولے بھی اپنے
……..
کتنے زخم دل میں چھپا لیتا ہوں
چوٹ کھا کر بھی مسکرا لیتا ہوں
مرے ہر زخم پر اک داستاں تھی اس کے ظلموں کی
مرے خوں بار دل پر اس کے ہاتھوں کا نشاں بھی تھا
عازم کوہلی
…………
صدا کسے دیں نعیمیؔ کسے دکھائیں زخم
اب اتنی رات گئے کون جاگتا ہوگا
عبد الحفیظ نعیمی
………….
کتنے ہی زخم ہرے ہیں مرے سینے میں نیازؔ
آپ اب مجھ سے عنایات کی باتیں نہ کرو
عبدالمتین نیاز
……………
تمہاری بات ہی کیا تم بڑے ہنر سے ملے
نہ زخم دل کی طرح اور نہ چارہ گر کی طرح
عبد الوہاب سخن
………….
تم تو اے خوشبو ہواؤ اس سے مل کر آ گئیں
ایک ہم تھے زخم تنہائی ہرا کرتے رہے
عبد اللہ کمال
…………..
زخم کھا کر بھی جو دعائیں دے
کون اس کا مقابلہ کرے گا
عبدالرحمان مومن
…………..
یہ داغ عشق جو مٹتا بھی ہے چمکتا بھی ہے
یہ زخم ہے کہ نشاں ہے مجھے نہیں معلوم
ابرار احمد
………..
زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے
دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے
عابد ملک
………….
پھول کی پتی پہ کوئی زخم ڈال
آئنے میں رنگ کا اظہار کر
ابو الحسنات حقی
…………..
وہ آ رہا تھا مگر میں نکل گیا کہیں اور
سو زخم ہجر سے بڑھ کر عذاب میں نے دیا
ابو الحسنات حقی
…………
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو
ادا جعفری
…….
ہوا کے پھول مہکنے لگے مجھے پا کر
میں پہلی بار ہنسا زخم کو چھپائے ہوئے
افضل منہاس
……………
اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے
احمد فراز
…………..
وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
احمد فراز
…………
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آئے ہی نہیں اب کے گلابوں والے
احمد فراز
………….
چارہ گر نے بہر تسکیں رکھ دیا ہے دل پہ ہاتھ
مہرباں ہے وہ مگر نا آشنائے زخم ہے
احمد فراز
…………..
زخم گنتا ہوں شب ہجر میں اور سوچتا ہوں
میں تو اپنا بھی نہ تھا کیسے تمہارا ہوا ہوں
احمد فرید
………….
زخموں کو اشک خوں سے سیراب کر رہا ہوں
اب اور بھی تمہارا چہرہ کھلا رہے گا
احمد محفوظ
……..
اب شغل ہے یہی دل ایذا پسند کا
جو زخم بھر گیا ہے نشاں اس کا دیکھنا
احمد مشتاق
…….
زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں
ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں
احمد صغیر صدیقی
……….
یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں
یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے
احمد صغیر صدیقی
…………
دنیا نے جو زخم دیئے تھے بھر دیئے تیری یادوں نے
یادوں نے جو زخم لگائے وہ بڑھ کر ناسور ہوئے
احمد شاہد خاں
…………
لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے
یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا
احمد شہریار
………..
اب کہاں ملتا ہے عاشق کوئی سچا صاحب
زخم ہی کوئی لگا دیں مجھے اچھا صاحب
احسن گلفام
……….
محو حیرت ہوں خراش دست غم کو دیکھ کر
زخم چہرے پر ہیں یا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا
عاجز ماتوی
………….
میرے ساتھ سوئے جنون چل مرے زخم کھا مرا رقص کر
میرے شعر پڑھ کے ملے گا کیا پتا پڑھ کے گھر کوئی پا سکا؟
اجمل صدیقی
………….
میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں
آکاش عرش
…………..
فن کار بضد ہے کہ لگائے گا نمائش
میں ہوں کہ ہر اک زخم چھپانے میں لگا ہوں
اکبر حمیدی
…………
ہمیں ہر آنے والا زخم تازہ دے کے جاتا ہے
ہمارے چاند سورج اور ستارے ایک جیسے ہیں
اختر امان
…………
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا کاری تھا
اختر ہوشیارپوری
……….
روح کی گہرائی میں پاتا ہوں پیشانی کے زخم
صرف چاہا ہی نہیں میں نے اسے پوجا بھی ہے
اختر ہوشیارپوری
…………
جنوں بھی زحمت خرد بھی لعنت ہے زخم دل کی دوا محبت
حریم جاں میں طواف پیہم یہی ہے انداز عاشقانہ
اختر اورینوی
…………..
زخم نگاہ زخم ہنر زخم دل کے بعد
اک اور زخم تجھ سے بچھڑ کر ملا مجھے
اختر سعیدی
………
دکھانا پڑے گا مجھے زخم دل
اگر تیر اس کا خطا ہو گیا
الطاف حسین حالی
…………..
خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
امیر امام
……..
درد نے لی انگڑائی ایسی
زخم کا اک اک ٹانکا ٹوٹا
امیر نہٹوری
………..
ہوگی نہ چارہ گر تری تدبیر کارگر
ہم کو خود اپنے زخموں کی چاہت ہے آج کل
امیر نہٹوری
……
وقار شوق سے گر کر بھی وار مت کرنا
ملے جو زخمی پرندہ شکار مت کرنا
امیر نہٹوری
…………
دل کے زخموں کو سجانے کا ہنر رکھتا ہوں
مستقل میں تری یادوں کا سفر رکھتا ہوں
امیر نہٹوری
………..
فرقت کی شب خاموشیاں زخموں کی پھر انگڑائیاں
آنکھیں جب اپنی نم ہوئیں بے چارگی اچھی لگی
امیر نہٹوری
…………
روح سے لپٹے درد کے منظر
ٹوٹ رہے ہیں زخم کے پیکر
امیر نہٹوری
………….
ہم اپنے زخموں پہ رکھ لیں نمک ضروری ہے
دیار عشق میں ان کی مہک ضروری ہے
امیر نہٹوری
…….
کہیں صلیب کہیں کربلا نظر آئے
جدھر نگاہ اٹھے زخم سا نظر آئے
امیر قزلباش
………….
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
عمار اقبال
………….
اس نے ناسور کر لیا ہوگا
زخم کو شاعری بناتے ہوئے
عمار اقبال
…………..
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
امجد اسلام امجد
……..
کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد
زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں
انجم عرفانی
………
مری خاطر سے یہ اک زخم جو مٹی نے کھایا ہے
ذرا کچھ اور ٹھہرو اس کے بھرتے ہی چلے جانا
انجم خلیق
……
کسی غریب کو زخمی کریں کہ قتل کریں
نگاہ ناز پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں
انور شعور
……..
ترے اس پھول سے چہرے نے اب کے
مرے زخموں کو مہکایا بہت ہے
انور شادانی
……….
وہ کیا کہ جس کو میسر ہے مستقل ہونا
سرشت زخم میں شامل ہے مندمل ہونا
عاصم ندیم عاصی
………….
وہ درد ہوں کوئی چارہ نہیں ہے جس کا کہیں
وہ زخم ہوں کہ ہے دشوار اندمال مرا
اسلم محمود
…………
غم گساری کے لئے اب نہیں آتا ہے کوئی
زخم بھر جانے کا امکاں نہ ہوا تھا سو ہوا
اطہر نادر
…………
تو نے بھی سارے زخم کسی طور سہ لیے
میں بھی بچھڑ کے جی ہی لیا مر نہیں گیا
عظیم حیدر سید
…………
خود اپنے پاؤں بھی لوگوں نے کر لیے زخمی
ہماری راہ میں کانٹے یہاں بچھاتے ہوئے
اظہر عنایتی
………